مودی حکومت نے داخلی اور عالمی اہم امور پر دنیا بھر میں بھارت کے نکتہ نظر کو پیش کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے بین الاقوامی میڈیا چینلوں کے طرز پر سرکاری نشریاتی ادارے دور درشن (ڈی ڈی)کا'ڈی ڈی انٹرنیشنل‘کے نام سے ایک نیا چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
Published: undefined
حکومتی ادارے پرسار بھارتی نے گزشتہ ہفتے ایک ٹنڈر نوٹس جاری کرکے”ڈی ڈی انٹرنیشنل قائم کرنے کے لیے" نجی کمپنیوں کو تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ دور درشن کو عالمی سطح پر لے جانے اور بھارت کا موقف بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کی خاطر بی بی سی کی طرز پر ڈی ڈی انٹرنیشنل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ بھارت کی 'معتبر، جامع اور حقیقی‘امیج دنیا کے سامنے پیش کی جا سکے۔
Published: undefined
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مودی حکومت اور بھارت کو بالخصوص کورونا وبا سے مناسب طریقے پر نہیں نمٹنے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم پرسار بھارتی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس ٹی وی چینل کو شروع کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ تجویز ایک عرصے سے زیر غور تھی۔
Published: undefined
پرسار بھارتی کے سابق چیئرمین اور ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے والے صحافی اے سوریا پرکاش کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت بھی میڈیا کے شعبے میں دیگر ملکوں کی طرح بڑھ چڑھ کر کام کرے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت کا بھی اپنا ایک بین الاقوامی میڈیا با زو ہو اور اس کا بیورو اور اس کے نامہ نگار دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہوں۔
Published: undefined
سوریا پرکاش کا کہنا تھا”جس طرح بی بی سی، سی این این یا ڈی ڈبلیو بھارت سے متعلق خبریں دیتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم بھی دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کو کور کریں۔"
Published: undefined
پرسار بھارتی کے چیئرمین کے طور پر سوریا پرکاش اس کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے ”غیر ملکی پریس کے جانبدارانہ رویے‘‘ کا بھارت کی طرف سے جواب دینے کے لیے اطلاعات و نشریات کی وزارت کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا، ”میں (ڈی ڈی انٹرنیشنل بنانے کے) حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔بھارت کے پاس ایک اعلی معیار کا میڈیا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جو نہ صرف بھارت کی آواز کو عالمی سطح پر پیش کر سکے بلکہ دنیا میں ہونے والے واقعات پر ناقدانہ نگاہ بھی ڈال سکے اور بھارتی ناظرین کو دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والے واقعات سے آگاہ بھی کر سکے۔"
Published: undefined
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک، مذہبی اور لسانی اقلیتوں نیز قبائلیوں کے خلاف حکومتی کارروائی، لنچنگ یا سر عام تشدد کے واقعات، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں، کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف قانونی کارروائیوں وغیرہ نیز حالیہ ہفتوں کے دوران کورونا کی بحرانی کیفیت کے سلسلے میں بین الاقوامی میڈیا جس طرح مسلسل خبریں دے رہا ہے اس سے حکومت کافی پریشان ہو گئی ہے۔
Published: undefined
مارچ میں جب امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے اپنے فریڈم انڈیکس میں بھارت کی رینکنگ گھٹا کر اسے 'جزوی آزاد‘ ملک کے زمرے میں ڈال دیا تھا تو مودی حکومت گھبرا گئی تھی۔حکومت نے اس کی تردید بھی جاری کی تھی۔ اس کے چند ہی دنوں بعد سویڈن کے و ی ڈیم انسٹی ٹیوٹ نے میڈیا کو 'کچلنے‘ اور بغاوت کے قوانین کا بے جا اور غیر ضروری استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کو 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ کے درجہ کو کم کرتے ہوئے اسے ایک'منتخب آمریت‘ قرار دیا تھا۔ دو روز قبل ہی برطانوی اخبار'دی گارجین‘نے اتر پردیش کے بارہ بنکی میں ایک سو سالہ قدیم مسجد کو منہدم کرنے کی خبر شائع کی تھی جبکہ بیشتر بھارتی میڈیا نے اس خبر کو نظر انداز کر دیا تھا۔
Published: undefined
مودی حکومت غیر ملکی میڈیا میں بھارت کے متعلق شائع اور نشر ہونے والی اس طرح کی'منفی خبروں‘ اور نکتہ چینی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عرصے سے غور کر رہی تھی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ ان خبروں کی وجہ سے ایک عالمی رہنما کے طور پر نہ صرف مودی کی امیج متاثر ہوئی ہے بلکہ دنیا میں بھارت کا اعتبار بھی کم ہوا ہے۔
Published: undefined
پرسار بھارتی کے سی ای او ششی شیکھر ویم پتی نے ڈی ڈی انٹرنیشنل کے قیام کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ ایسی چیز ہے جس کی ایک عرصے سے ضرورت تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ دور درشن بھی بین الاقوامی سطح پر نظر آئے۔"
Published: undefined
ششی شیکھر نے اس فیصلے کو 'سب کے لیے نعمت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چینل کی حقیقی شکل کیا ہو گی اور اس پر کتنی لاگت آئے گی یہ مکمل خاکہ تیار ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ انہوں نے تاہم کہا،”اس کی شکل بڑی حد تک بی بی سی یا الجزیرہ جیسی ہو گی۔ ابتدامیں بی بی سی ورلڈ سروس کی طرح خبروں پر زیادہ زور دیا جائے گا لیکن بعد میں اسے وسعت دی جائے گی کیونکہ دنیا کو بھارتی ثقافت سے بھی خاصی دلچسپی ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز