سماج

مودی حکومت کی نئی پہل: 'ایک ملک، ایک انتخاب' زیرغور

بھارت میں مودی حکومت نے 'ایک ملک، ایک انتخاب' کے امکانات تلاش کرنے کے لیے سابق صدر کووند کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ یہ پہل پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے اعلان کے ایک روز بعد ہوئی ہے۔

مودی حکومت کی نئی پہل: 'ایک ملک، ایک انتخاب' زیرغور
مودی حکومت کی نئی پہل: 'ایک ملک، ایک انتخاب' زیرغور 

مودی حکومت نے ایک روز قبل ہی 18سے 22 ستمبر کے درمیان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کے اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ اب 'ایک ملک، ایک انتخاب' کے امکانات تلاش کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔

Published: undefined

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آئندہ مہینوں میں ہونے والے کئی اہم ریاستی انتخابات کے مد نظر مودی حکومت ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اس خصوصی اجلاس کے دوران کچھ انتہائی اہم بل بھی منظور کراسکتی ہے۔

Published: undefined

'ایک ملک، ایک انتخاب' کیا ہے؟

'ایک ملک، ایک انتخاب' سے مراد پورے ملک میں لوک سبھا (پارلیمنٹ) اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی مواقع پر اس موضوع پر بات کی ہے۔ یہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ بھی تھا۔

Published: undefined

مودی نے 2016 میں بیک وقت انتخابات کی وکالت کی تھی اور 2019 میں لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعد انہوں نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے آل پارٹی میٹنگ بھی بلائی تھی۔ حالانکہ کئی اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وزیر اعظم مودی کی دلیل ہے کہ ہر چند ماہ بعد انتخابات کا انعقاد ملکی وسائل پر بوجھ ڈالتا ہے اور گورننس میں خلل کا سبب بنتا ہے۔

Published: undefined

سابق بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو اس پر غور و خوض کرنے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنا اس سلسلے میں مودی حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ کووند نے بھی ماضی میں مودی کے اس نظریے کی تائید کی تھی۔ انہوں نے سن 2017 میں بھارتی صدر بننے کے بعد اس خیال کی حمایت کی تھی۔

Published: undefined

کیا یہ معاملہ آسان ہے؟

مودی حکومت اپنی دوسری میعاد کے اختتام کے قریب پہنچ رہی ہے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ اس معاملے کو مزید طول نہیں دیا جانا چاہئے اور چونکہ اس موضوع پر برسوں سے بحث ہو رہی ہے اس لیے اب اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فیصلہ کن طورپر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ "ایک ملک، ایک انتخاب" کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی اور پھر اسے ریاستی اسمبلیوں سے بھی منظور کرانا ہوگا۔

Published: undefined

حالانکہ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے اور 1952، 1957، 1962 اور 1967میں لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ لیکن 1968-69 کے بعد بعض ریاستی اسمبیلوں کو مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کردیے جانے کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔

Published: undefined

اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، "انہیں یہ بل لانے دیجئے، لڑائی جاری رہے گی۔" کانگریس کے ایک دیگر سینیئر رہنما ادھیر رنجن چودھری کا کہنا تھا، "ایک ملک، ایک انتخاب کے سلسلے میں مودی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ "

Published: undefined

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ کا کہنا تھا کہ دراصل ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو ایک قوم اور ایک پارٹی کا جنو ن ہے اور اپوزیشن کے متحد ہونے کے بعد سے وہ کافی پریشان ہے۔

Published: undefined

ڈی راجہ کا کہنا تھا، "ایک ملک، ایک الیکشن کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس پر کئی سالوں سے بحث ہو رہی ہے۔ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اسے' ایک قوم، ایک ثقافت'، 'ایک قوم، ایک مذہب'، 'ایک قوم، ایک زبان' کا جنون سوارہے۔' ایک ملک، ایک ٹیکس؛ اب ایک ملک، ایک انتخاب؛ پھر ایک قوم، ایک پارٹی؛ ایک قوم، ایک لیڈر۔ یہی وہ جنون ہے جس میں بی جے پی مبتلا ہے۔''

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined