سماج

جرمنی کے باقی ماندہ جوہری پلانٹس کی بندش

جرمنی اپنے باقی ماندہ آخری تین جوہری پلانٹ بھی بند کر رہا ہے۔ جرمنی کی گرین پارٹی ایک طویل عرصے سے جوہری پلانٹس کی بندش کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے۔

جرمنی کے باقی ماندہ جوہری پلانٹس کی بندش
جرمنی کے باقی ماندہ جوہری پلانٹس کی بندش 

ایک ایسے موقع پر کہ جب فوکوشیما جوہری حادثے کے باوجود براعظم ایشیا میں کئی ممالک جوہری توانائی کے جانب بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جرمنی اپنے آخری تین جوہری پلانٹ بھی بندکرنے والا ہے۔

Published: undefined

مارچ کے آخر میں جرمنی کی وزیرماحولیات اور گرین پارٹی کی رہنما اشٹیفی لیمکے نے جوہری توانائی جاری رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق ابہام سے جڑی بحث کو چند ہی جملوں میں ختم کر دیا تھا۔ ان کا اس حوالے سے کئی برسوں سے جاری تجسس ختم کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جوہری توانائی سے جڑی خطرات بلآخر قابو سے باہر ہوتے ہیں، اس لیے جوہری دور کا خاتمہ ہمارے ملک کو محفوظ بنائے گا اور جوہری فضلے سے جان چھٹ جائے گی۔‘‘

Published: undefined

اس سے قبل حکومت اس بابت ایک نئے تنازعے کا شکار ہو گئی تھی۔ حالاں کہ حکمران اتحاد میں شامل سوشل ڈیوکریٹک پارٹی، گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹکٹ پارٹی نے اتفاق کیا تھا کہ چانسلر میرکل کے دو ہزار گیارہ میں طے کردہ فارمولے کے تحت دو ہزار بائیس کے اختتام تک تمام جوہری پلانٹس بند کر دیے جائیں گے، تاہم اس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔

Published: undefined

یوکرین پر روسی حملے کے آغاز اور جرمنی کے لیے روسی گیس کی سپلائی کی بندش اور توانائی کی ممکنہ کمی کے خدشات نے جوہری پلانٹس کو بند نہیں ہونے دیا تھا۔ چانسلر اولاف شولس نے اسی تناظر میں جوہری ری ایکٹرز کو پندرہ اپریل 2023 ء تک فعال رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

Published: undefined

دہائیوں پرانا جھگڑا

جرمنی میں جوہری توانائی سے متعلق عوامی رائے منقسم رہی ہے۔ اس بحث میں مختلف مواقع پر کبھی رائے عامہ اس کے حق میں رہی ہے اور کبھی مخالف۔ جرمنی میں سترہ جون سن 1961 کو جنوبی جرمن صوبے باویریا کے کاہل کے علاقے میں قائم پہلے جوہری پلانٹ سے بجلی کی ترسیل شروع ہوئی تھی اور اب اس کے بائیس ہزار پانچ سو چھانوے روز بعد پندرہ اپریل 2023 کو آخری تین جوہری پلانٹس کی بندش کے بعد یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچا جائے گی۔

Published: undefined

جرمنی میں جوہری توانائی سے استفادے کا آغاز 'انڈے‘ سے ہوا۔ جرمنی میں پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر اکتوبر 1957ء میں جنوبی شہر میونخ کے قریبی علاقے گارچنگ میں لگایا گیا۔ اس کی عمارت کو اس کی شکل کی بنیاد پر 'ایٹمی انڈا‘ پکارا جاتا تھا اور یہ میونخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے زیرانتظام چلتا تھا۔ اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں جوہری تحقیق کے حوالے سے ایک سنگ میل سمجھا جاتا تھا۔ یہ ری ایکٹر سن 2000 تک فعال رہا۔

Published: undefined

اس ری ایکٹر کے قیام کے تین برس بعد باویریا صوبے ہی کے علاقے کاہل ام مائن میں1961 میں سویلین مقاصد کے لیے توانائی پیدا کرنے کی غرض سے جوہری ری ایکٹر لگایا گیا۔ اس کے بعد متعدد دیگر مقامات پر جوہری پلانٹس لگائے جاتے رہے۔ تب جوہری توانائی کو صاف اور محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ سن 1973 کے تیل کے بحران میں جوہری توانائی کو مزید تقویت ملی۔

Published: undefined

جوہری توانائی کے خلاف آوازیں

ستر کی دہائی میں ہی جوہری توانائی کے مخالفین نے جوہری فضلے کے ٹھکانے لگانے سے متعلق آوازیں اٹھانا شروع کیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ جوہری فضلے کو اگر محفوظ انداز سے ٹھکانے لگانا آسان نہیں، تو جوہری توانائی کیسے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے؟ اسی تناظر میں شمالی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولشٹائن کے برکڈورف جوہری پلانٹ کے باہر ہزاروں افراد نے پہلی دفعہ ایک بڑا مارچ کیا اور یہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

Published: undefined

جرمنی میں اسی تناظر میں ماحول دوستوں کی جانب سے ''جوہری توانائی؟ نہیں شکریہ‘‘ کا نعرہ سامنے آیا، جو اس بابت تقریباﹰ ہر احتجاج کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ سن 1980 میں سابقہ مغربی جرمنی میں اسی تناظر میں ایک نئی جماعت قائم کی گئی، جس کا نام تھا ''گرین پارٹی‘‘۔ اس جماعت میں جوہری توانائی کے مخالفین، ماحول دوست، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور امن پسند افراد پیش پیش تھے۔ سن 1983 میں یہ جماعت جرمن پارلیمان میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔

Published: undefined

28 مارچ سن 1979 کو امریکی ریاست پینسیلوینیا میں قائم ایک جوہری حادثے کے بعد جوہری توانائی کے خطرات مزید واضح ہو گئے۔ 26 اپریل 1986ء کو سابقہ سوویت یونین میں چرنوبل کے جوہری ری ایکٹر کے تباہ کن حادثے اور جرمنی سمیت یورپ بھر میں پھیلنے والی تابکاری کے بعد یہ خوف اور خدشات مزید تقویت پکڑ گئے۔ جرمنی تب کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور جمہوری مغربی جرمنی میں منقسم تھا۔ مشرقی جرمنی میں حکومت کو اس حادثے سے متعلق کسی حد تک معلومات فراہم کی گئیں تھیں تاہم مغربی جرمنی میں مکمل غیر یقینی کی صورت حال تھی۔ اسی صورت حال میں ہنگامی حالت سے نمٹنے والی ایک ٹیم بنائی گئی اور پھر اسے تحلیل کر دیا گیا۔

Published: undefined

آئیوڈین کی گولیوں، ٹنوں پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کو خرید کر تلف کیا گیا۔ بچوں کو ریت میں کھیلنے سے روک دیا گیا اور لوگوں سے کہا گیا کہ وہ بارش میں گھر سے باہر نہ نکلیں۔ جرمنی میں گو کہ صحت کے حوالے سے بہت زیادہ اثرات تو نہ دیکھے گئے، تاہم ملک میں اسی تناظر میں تابکاری کی حد متعارف کروائی گئی اور ساتھ ہی وزارت ماحولیات بھی بنائی گئی۔ باویریا کے قصبے ویکرسڈورف میں جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ وہاں فسادات پھوٹ پڑے اور متعدد مظاہرین اور سرکاری اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ جرمنی میں جوہری پلانٹس کی تعمیر پر سن 1989 میں پابندی عائد کر دی گئی، جسے جرمن ماحول دوست اپنی پہلی فتح قرار دیتے ہیں۔‍

Published: undefined

الوداع جوہری توانائی

1998ء میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی گیرہارڈ شرؤڈر کی قیادت میں گرین پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت میں آئی تو توانائی کی اہم کمپنیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ملک بھر سے جوہری پلانٹس کے خاتمے کے لیے 2021 ء کی ڈیڈلائن طے کی گئی۔ اس سلسلے میں جرمنی میں واقع تمام 19 جوہری پلانٹس کی بندش پر اتفاق کیا گیا تھا۔

Published: undefined

چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں قدامت پسند جماعت سی ڈی یو نے یہ معاہدہ ختم کر دیا اور جوہری پلانٹس کی فعالیت برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ گیارہ مارچ 2011 ء کو تاہم جاپانی شہر فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کے حادثے کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمنی سمیت دنیا بھر میں جوہری توانائی سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو گیا۔ جرمنی میں اس سلسلے میں عوامی رائے شدید تھی۔ اسی تناظر میں چانسلر میرکل نے ایک مرتبہ پھر جوہری پلانٹس کے خاتمے کے لیے دو ہزار بائیس کی ڈیڈلائن مقرر کر دی۔ اس سلسلے میں 30 جولائی 2011 کو جرمن پارلیمان نے بھی جوہری ری ایکٹروں کی بندش کے حق میں ووٹ دے دیا۔

Published: undefined

نظرثانی

یوکرین پر روسی حملے کے بعد جرمنی سمیت یورپ بھر میں توانائی کے بحران کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر جرمنی میں یہ بحث عام ہو گئی کہ آیا جوہری پلانٹس بند کرنا چاہییں؟ قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے رہنما ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے نظر آئے کہ جوہری توانائی کا حصول جاری رکھا جائے، تاکہ روسی گیس کی بندش سے توانائی کے شعبے میں پیدا ہونے والے خلاف کو بجلی سے پورا کیا جاتا رہے۔ حکمران اتحاد میں شامل ایف ڈی پی کے متعدد رہنماؤں نے بھی جوہری توانائی کے حق میں اپنی رائے دی، دوسری جانب گرین پارٹی اور ایس پی ڈی اس سلسلے میں مختلف رائے کے حامل تھے۔ گرین پارٹی اور ایس پی ڈی اپنی انتخابی مہم میں دو ٹوک الفاظ میں جوہری پلانٹس کی بندش اور توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب بڑھنے کے وعدے کرتی رہے ہیں۔

Published: undefined

یوکرینی جنگ اور اسی تناظر میں جرمنی کے لیے روسی گیس کی بندش کے بعد توانائی کے حوالے سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے جوہری پلانٹس کی بندش کی مدت کو پندرہ اپریل 2023 تک وسعت دی گئی تھی۔ تاہم اب بلآخر جرمنیکے باقی ماندہ تین جوہری ری ایکٹر بند ہو رہے ہیں۔

Published: undefined

جاپان دوبارہ جوہری توانائی کی جانب

سن 2011 کے فوکوشیما حادثے کے بعد جاپان میں جوہری پلانٹس بند کر دیےگئے تھے۔ اس حادثے کی وجہ سے جاپان میں دوسری عالمی جنگ کے ایٹمی حملے کی یادیں تازہ ہو گئیں اور ایک وسیع علاقہ تابکاری سے متاثرہ ہوا، تاہم دھیرے دھیرے جاپان میں جوہری ری ایکٹر دوبارہ فعال ہوتے چلے گئے۔ حال ہی میں جاپانی وزیراعظم فومیو کشیدا نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو جوہری توانائی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جوہری توانائی کے دوران چوں کہ کاربن گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، اس لیے بہت سے افراد جوہری توانائی کو صاف اور ماحول دوست قرار دیتے ہیں۔ حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ جاپان میں جوہری توانائی سے متعلق مزاحمت کے باوجود فومیو کشیدا کو جوہری توانائی کی بابت عوامی حمایت دستیاب ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined