کلاؤس اوئلر کے لیے سب کچھ ان کی سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے میں ملازمت کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ پھر وہ اقوام متحدہ کے مشیر کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2005ء میں جب شمالی پاکستان میں بہت تباہ کن زلزلہ آیا تھا، تو انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر متاثرین کی مدد اور بحالی کے منصوبوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
اس جرمن باشندے کی عمر اس وقت 65 برس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جنوبی ایشیائی ممالک کے کئی سیاحتی دورے کیے اور پہلی مرتبہ وہ 1979ء میں پاکستان گئے تھے۔ کلاؤس اوئلر کے الفاظ میں، ''اس خطے نے مجھے اپنی دلکشی کی وجہ سے ہمیشہ ہی اپنی طرف کھینچا ہے، جس کا سبب اس کی کثیرالجہتی ثقافت کی مقناطیسیت ہے۔‘‘
Published: undefined
تقریباﹰ 20 برس قبل ایک پاکستانی خاتون سے شادی کر لینے والے کلاؤس اوئلر کہتے ہیں، ''پاکستان میں لوگوں کا رویہ بہت ہی خیر مقدمی اور معاونت والا ہوتا ہے۔ آپ اس بہت خوبصورت ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، آپ کو پاکستانی باشندے انتہائی مہمان نواز ہی ملیں گے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ڈسلڈورف جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا دارالحکومت ہے اور کلاؤس اوئلر کی شخصیت ایک مخصوص رائن لینڈر جرمن کی ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ آٹھ برسوں سے وہ اپنی ایک بیکری بھی چلاتے ہیں اور اپنی مصنوعات اسلام آباد کی ایک مشہور ہفتہ وار مارکیٹ میں بیچتے ہیں۔
Published: undefined
ان کی بیکری مصنوعات خاص جرمن طریقے سے تیار کی جاتی ہیں، جو اسلام آباد میں ان کے مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی گاہکوں میں بھی اتنی ہی مقبول ہیں، جتنی انہیں مقامی پاکستانی باشندے پسند کرتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
شروع میں کلاؤس اوئلر کا خیال تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بیکری چلائیں گے، لیکن انہوں نے جو کام محض ضمنی طور پر شروع کیا، وہ اتنا کامیاب رہا کہ اب ان کی بیکری 'ماکس اُنڈ مورِٹس جرمن بیکری‘ اسلام آباد میں ایک کافی جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔
Published: undefined
'ماکس اُنڈ مورِٹس‘ یا 'ماکس اور مورِٹس‘ بچوں کے لیے لکھے جانے والے جرمن ادب کی ایک معروف کہانی ہے۔ یہ کہانی وِلہَیلم بُش نامی جرمن مصنف نے تقریباﹰ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل لکھی تھی۔ وِلہَیلم بُش کلاؤس اوئلر کے پڑدادا کے بھائی تھے۔ اسی لیے انہوں نے اس نام سے اپنی خاندانی نسبت اور اس کہانی کے کرداروں سے متاثر ہو کر اپنی بیکری کا یہ نام رکھا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
کلاؤس اوئلر اپنی بیکری مصنوعات صرف اتنی ہی تیار کرتے ہیں، جتنی لازمی طور پر فروخت ہو جائیں۔ یہ سوچ بھی جرمن نانبائیوں کی مخصوص ذہنیت کا حصہ ہے۔ پیداوار اتنی ہی ہونا چاہیے، جتنی ہاتھوں ہاتھ بک جائے تاکہ گاہکوں کو ہر مرتبہ صرف تازہ مصنوعات ہی ملیں، جو اسی روز تیار کی گئی ہوں۔
Published: undefined
وہ اپنی مصنوعات کے لیے زیادہ تر اجزائے ترکیبی اور اجناس اپنے گھر کی چھت پر بنائے گئے باغیچے میں اگاتے ہیں۔ اوئلر چند مقامی تاجروں سے اس طرح کاروباری تعاون بھی کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے گھر پر تیار کردہ کئی طرح کا وہ پنیر چند مقامی کاروباری اداروں کو بیچ دیتے ہیں، جو دوسری صورت میں پاکستان میں مقامی طور پر تازہ تو کبھی دستیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
Published: undefined
Published: undefined
کلاؤس اوئلر کہتے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان میں جرمنی کی بیکری مصنوعات کی روایت متعارف کرانا زیادہ اہم تھا اور آمدنی سے کہیں زیادہ اہم تھا ان کی تیار کردہ مصنوعات کا معیار۔ یہ 65 سالہ جرمن شہری اب تک اپنے کاروبار میں اتنے کامیاب ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنی تیار کردہ بیکری مصنوعات اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں بھی فروخت کرتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
کلاؤس اوئلر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت سے متنوع کام کر چکے ہیں اور طرح طرح کی کامیابیاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کسی روز میں واپس جرمنی چلا جاؤں، میئربُش میں، جہاں میری جڑیں ہیں۔ اس لیے کہ میرے لیے اب کسی کو بھی کچھ کر کے دکھانے کی، خود کو ثابت کرنے کی نا کوئی اہمیت رہی ہے اور نا ہی ضرورت۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined