سات دسمبر کی صبح چانسلر ولی برانٹ وارسا کے گیٹو میموریل پہنچے۔ یہ سابق جرمن نازی دور کے قبضے اور مظالم کے خلاف یہودیوں کی بے مثال جرات کی ايک یادگار ہے۔ ولی برانٹ نے حسب روایت پھول چڑھائے اور جرمن پرچم کے رنگوں والا ربن سیدھا کیا، پھر خاموشی کے ساتھ چند قدم پیچھے ہٹے۔ چند سیکنڈ گزرے۔ اور پھر وہ اپنے گھٹنوں پر آ گئے اور اپنا سر جھکا دیا۔ فوٹوگرافر وہاں موجود تھے اور وہ یہ تصویر لیتے ہوئے جانتے تھے کہ یہ تصویر تمام دنیا تک پہنچے گی اور تاریخ کا ايک اہم موڑ ثابت ہو گی۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن چانسلر وِلی برانٹ نے اپنی سوانحح حیات میں لکھا تھا، ''تاریخی جرمن پس منظر اور لاکھوں انسانوں کے قتل کا بوجھ، میں نے وہی کچھ کیا جو انسان تب کرتے ہیں، جب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا۔‘‘ وہ گھٹنوں کے بل یوں ہوئے، جیسے چرچ میں جا کر گناہ گار ہوا کرتے ہیں۔ بہ ظاہر انہوں نے دعا کی کہ جرمن شہریوں کو معاف کر دیا جائے۔
Published: undefined
سوشل ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والے وِلی برانٹ نے خود بھی نازیوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ اس اشارے سے انہوں نے جیسے اپنی قوم کی معافی کی دعا کی۔ تو کیا گھٹنوں کے بل کھڑے ہونا ایک طے شدہ عمل تھا؟ برانٹ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ ''میرے قریبی ساتھی بھی نہیں جانتے تھے۔ میرے بالکل ساتھ کھڑے لوگ بھی رپورٹروں اور فوٹوگرافروں کی طرح حیران تھے۔‘‘
Published: undefined
پولستانی حکومت کے لیے بھی يہ ایک حیرت انگيز منظر تھا۔ وارسا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کرسیسٹوف رشنیویچس کہتے ہیں، ''اس لمحے تک جرمنز کو 'شیطان‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا لوگ ہیں۔ ایسے میں ایک جرمن چانسلر اپنے مخالفین کو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ایک نیا اشارہ دیتا ہے۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر رشنیویچس اور پولستانی حکومت نے اس عمل کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کا عندیہ سمجھا، تاہم پارٹی پروپیگنڈا موجود تھا، جس نے جرمنی کے تشخص پر نظرثانی کے اس موقع کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔
Published: undefined
Published: undefined
پروفیسر رشنیویچس کے مطابق، ''عام افراد کو ذرا سا بھی علم نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘ جرمن چانسلر کی گھٹنوں کے بل ہو کر تعظیم اور معذرت کا منظر پیش کرتی یہ تصویر پولستانی اخباروں میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں تاہم برانٹ کی مفاہمت کی پالیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ ہم وار کی۔
Published: undefined
وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ فاؤنڈیشن سے وابستہ تاریخ دان کرسٹینا میئر کے مطابق برانٹ کے اس اشارے نے ایک ٹیبو توڑ دیا تھا۔ ''جرمنی کے نازی ماضی کو دیکھا جائے، تو آپ اس اشارے کو جرمن معاشرے کے لیے گیم چینجر کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت تک بھی جرمن معاشرے میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی تھا، جو نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے بدترین جرائم پر معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سن 1970 میں کرائے گئے ایک سروے میں مغربی جرمنی کے ہر دوسرے شہری نے وِلی برانٹ کے اس عمل کو رد کیا تھا اور اسے خواہ مہ خواہ کا کام قرار دیا تھا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined