جنرل قمر باجوہ نے کل پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،'' ہمیں ماضی کو دفن کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘ اس بیان پر تنقید نہ صرف پاکستان کے کئی حلقوں میں ہو رہی ہے بلکہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری تنظیمیں بھی اس بیان کو ہدف تنقید بنارہی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
پاکستان انڈیا پیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کے رہنما راحت سعید کا کہنا ہےکہ بیان اخلاص پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج جنگ نہیں چاہتی کیونکہ روایتی جنگ میں پاکستانی فوج کا نقصان ہوگا لیکن یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور بھارت دشمنی ختم کرنا چاہتی ہے، یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا پورا انحصار ہی بھارت دشمنی پر ہے جب کہ دونوں ملکوں کے عوام امن ہم چاہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کا یہ بیان بین الاقوامی برادری کو جتانے کے لیے ہے کہ دیکھیں پاکستان تو امن چاہتا ہے لیکن بھارت نہیں،''لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امن کے لیے اسٹیبلشمنٹ کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانا نہیں چاہتی اور یہ بیان صرف بین الاقوامی برادری کے لیے ہی ہے۔ ‘‘
Published: undefined
پاکستان کے سویلین رہنما بھارت کے ساتھ امن کی کئی بار کوششیں کر چکے ہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا گیا۔ نواز شریف کی پہلی اور بے نظیر کی دوسری حکومتوں نے مذاکرات کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ تاہم نواز شریف کی حکومت جب دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی تو اس نے اعلان لاہور کیا لیکن اس معاہدے کے فورا بعد ہی کارگل کے آپریشن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔
Published: undefined
Published: undefined
نون لیگ کا کہنا ہے کہ جب سویلین رہنما بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر دشنام طرازی کی جاتی ہے اور ان کے خلاف محاذ کھول دیے جاتے ہیں۔ پارٹی کی رہنما عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے بیان سے نوازشریف کی اخلاقی فتح ہو گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''نواز شریف نے جو باتیں بھی کیں، وقت اور حالات نے ان کو بالکل صحیح ثابت کیا۔ جب ہم نے بھارت سے امن کی بات کی اور اپنے گھر کو صحیح کرنے کی بات کی توڈان لیکس سامنے آ گئے اور ہماری حکومت کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ لیکن آج وہی بات کی جا رہی ہے، جس کا ذکر نوازشریف کرتے تھے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
لیکن کئی مبصرین آرمی چیف کے اس بیان کو انتہائی مثبت قرار دے رہے ہیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کو بالکل یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کریں،''خود نواز شریف کا کہنا ہے کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں اور انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات بھی کیے۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ تعلقات اچھے چاہتی ہے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تمام جماعتوں کو اس کی حمایت کرنا چاہیے کیونکہ اگر خطے میں امن ہو گا تو فوج کا سیکورٹی کا بیانیہ کمزور پڑے گا اور ملک میں جمہوری قوتیں طاقتور ہو گیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ڈاکٹر امان میمن کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی تنگ نظری ہے کہ وہ صرف قلیل مدتی مفادات کے لیے آرمی چیف کے بیان کی مخالفت کر رہی ہیں،''سیاسی جماعتوں کا عجیب رویہ ہے کہ جب ایک جماعت بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کرتی ہے تو دوسری جماعت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ جب نواز شریف نے کچھ برس پہلے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کی تھی تو بلاول بھٹو زرداری نے کشمیر میں مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کا نعرہ لگا یا اور اب اگر اسٹیبلشمنٹ بھارت سے تعلقات بہتر کرنا چاہ رہی ہے، تو سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں، جس سے یہاں پر مولوی اور مذہبی انتہا پسند جماعتیں مضبوط ہوں گے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی جنرل باجوہ کے بیان پرگرما گرم بحث جاری ہے۔کشمیری قوم پرست حلقوں کا خیال ہے کہ یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان متنازعہ علاقے میں اسٹیٹس کو چاہتا ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والی جے کے ایل ایف کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے اقدامات کرے،''بجائے اس کے آرمی چیف بھارت سے کہیں کہ وہ پہل کرے پاکستان کو خود پہل کرنا چاہیے اور اپنی فوجیں یہاں سے نکالنی چاہیے۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بیان سے لگتا ہے کہ پاکستان اسٹیٹس کو چاہتا ہے،''ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد کشمیر کی تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو حصہ کشمیر کا انڈیا کے پاس ہے، وہ بھارت رکھ لے اور جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان رکھ لے لیکن دونوں اطراف کے کشمیری اس کو بالکل قبول نہیں کریں گے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
تاہم دفاعی مبصرین اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں کہ پاکستان اپنی پوزیشن تبدیل کر رہا ہے۔ دفاعی مبصرجنرل امجد شعیب نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پاکستان اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کررہا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز