رومانیہ سے تعلق رکھنے والی مارا کا خواب اُس وقت پورا ہوا جب اُسے برلن میں اشتہارات کی صنعت میں اچھی نوکری ملی۔ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور رومانیہ میں کچھ سال کام کرنے کے بعد، 30 سالہ مارا وہیں پہنچی، جہاں وہ برسوں سے آنے کی تمنا کر رہی تھی۔ وہ کہتی ہے، ''جب میں جرمنی آئی تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اب میری ایک نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں ریٹائرمنٹ تک یہیں رہوں گی۔‘‘
Published: undefined
ایک سال بعد ہی مارا کی ابتدائی خوشی مایوسی میں بدلنے لگی۔ مارا خود کو تنہا محسوس کرتی ہے، اس کا کسی کے بھی ساتھ تعلق نہیں بن سکا، جس کی سب سے بڑی وجہ یا رکاوٹ زبان بنی۔ اس نے جرمن زبان کا کورس بخارسٹ سے کیا، لیکن برلن میں اس کے روزمرہ کے کام میں صرف انگریزی بولی جاتی ہے، ''اگر کوئی آہستہ بولے تو میں سمجھ لیتی ہوں۔ میں ایک کافی یا کاپوچینو آرڈر کر سکتی ہوں، لیکن میں ابھی تفصیلی بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
Published: undefined
مارا کی کمپنی نے کورونا وبائی امراض کے بعد ہوم آفس کو برقرار رکھا ہے۔ یعنی وہ اپنے ساتھیوں کو صرف اسکرین پر دیکھ سکتی تھی۔ اس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اس چیز نے مجھے بہت پریشان کیا۔ ویک اینڈ پر یہ اور بھی برا ہوتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے باہر جانا چاہیے یا نہیں اور میں کس سے مل سکتی ہوں کس سے نہیں۔‘‘
Published: undefined
برلن کے رہائشی علاقوں میں قائم مارکیٹس تک کا ماحول انتہائی خاموش ہے اور ایسے میں مارا کے لیے خریداری کرنا یا مارکیٹ میں کچھ تلاش کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ مارا کو سب سے زیادہ مشکلات غیر ملکیوں کے ویزے، جاب پرمٹ اور دیگر دستاویزی معاملات کے ذمہ دار اداروں سے نمٹنے میں پیش آئیں۔ اہلکار دستاویزات مانگتے اور مارا نے انہیں سمجھا نہیں پاتی۔ ایک عجیب سی کیفیت ہوتی۔ وہ کہتی ہے، ''یقیناً میں جرمنی میں لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ جرمن نہ بولیں۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گی، لیکن جب میں پوچھتی ہوں کہ کیا وہ انگریزی بولتے ہیں، تو وہ عام طور پر بہت تیز اور بلند آواز میں 'نہیں‘ کہتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے ساتھ جرمن حکام کے رویے میں تھوڑی سی کشادہ دلی اور لچک سے مدد ملے گی۔‘‘
Published: undefined
جرمنی کے معروف 'ٹیوبنگن انسٹیٹیوٹ فار اپلائیڈ اکانمکس اینڈ ریسرچ‘ کی جانب سے ایک فیس بُک سروے کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ جرمنی آنے والے غیر ملکی کارکن جرمن معاشرے میں انضمام کے حوالے سے بہت مثبت رائے نہیں رکھتے۔ یہ سروے دراصل جرمنی کی 'فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی‘ کے ایما پر کرایا گیا تھا، جس میں ایک ہزار نو سو غیر ملکی کارکنوں کی رائے لی گئی۔ ان سب نے جرمنی کے سماجی انضمام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی کمی کے بارے میں بڑی شکایات کیں۔ غیر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے تین میں سے دو ہنرمند کارکنوں نے بتایا کہ انہیں جرمنی میں اپنی اصل قومی شناخت کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ ان کی پیشہ ورانہ اہلیت کے مطابق انہیں معاشرے میں تسلیم نہیں کیا گیا۔ یورپی یونین کے باہر کے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے لیے اقامہ یا 'ریزیڈنٹ پرمٹ‘ انتہائی سخت قوانین سے جڑا ہوا ہے اس لیے خاص طور پر پریشان کن ہے۔
Published: undefined
جرمن دارالحکومت برلن کی ہمبولڈ یونیورسٹی کی پروفیسر نائیکا فوروٹان کہتی ہیں،''اب یہ ایک حقیقت‘‘ ہے کہ بہت سے غیر ملکی ماہرین جرمنی آکر جلد ہی واپس چل جاتے ہیں۔ بہت سے دیگر شعبوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین نے تو جرمنی آنا ہی چھوڑ دیا ہے، ''یورپی تعاون اور ترقی کے ادارے او ای سی ڈی OECD کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جرمنی واضح طور پر غیر ملکی ماہرین اور ہنر مندوں کے لیے اپنی کشش کھو چکا ہے۔‘‘
Published: undefined
جرمنی پیشہ ورانہ مواقع، آمدنی اور ٹیکس، مستقبل کے امکانات، خاندان کے دیگر افراد کے لیے مواقع، ان کی اہلیت کے مطابق ماحول، تنوع اور معیار زندگی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے میں داخلے اور رہائش کے حقوق کے ضمن میں کیے گئے ایک تقابلی جائزے میں OECD کے 38 ممالک میں 15ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ سن 2019 میں یہ 12 ویں نمبر پر تھا۔
Published: undefined
جرمن معاشرہ اب بھی تبدیلی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جدوجہد کر رہا ہے۔ مائیگریشن ریسرچر نائیکا فوروٹان کا کہنا ہے کہ جرمن شہریوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انضمام یک طرفہ سڑک نہیں ہے، ''ہم اُن لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، جو ہمارے یہاں آتے ہیں۔ دراصل وہ ہمارے لیے کچھ کرتے ہیں۔ یہی بات ہمیں اب اپنے اذہان میں بٹھانی چاہیے۔تاہم، سوچ میں تبدیلی خود بخود نہیں پیدا ہو گی، اس کے لیے امتیازی سلوک کے خلاف واضح رہنما اُصولوں کی ضرورت ہے جو مقننہ کا کام ہے۔‘‘
Published: undefined
لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور جرمنی ہر چیز میں تاخیر کے خطرات سے دوچار ہے۔ اب محض برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا دنیا بھر میں ہنر مند کارکنوں کو اپنے ہاں بلانے کے لیے مقابلہ کرنے والے ممالک نہیں ہیں۔ مائیگریشن ریسرچر نائیکا فوروٹان کے بقول، ''ہم اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ سعودی عرب، قطر، امارات ایک بڑے پیمانے پر غیر ملکی کارکنوں کی بھرتی کی مہم چلا رہے ہیں، نیز فلپائن اب اپنے لوگوں کو باہر کے ممالک نہیں جانے دے رہا ہے اور یہ کہ افریقہ ایک براعظم کے طور پر اپنے لوگوں کو اپنے پاس ہی رکھنے کے لیے اس وقت پوری کوشش کر رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined