سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند نوجوان ایک طالب علم کو پہلے بری طرح مار پیٹ رہے ہیں اور پھر اسے پیر چاٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
Published: undefined
بتایا جاتا ہے کہ یہ مجبور طالب علم ہندوؤں میں نچلی ذات کے دلت برادری سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ اسے مارنے اور اس کے ساتھ زور زبردستی کرنے والے اعلیٰ ذات کے 'ٹھاکر‘ ہیں۔ اس ویڈیو کو دلت وائس نامی تنظیم کے ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے۔
Published: undefined
آل انڈیا دلت مہیلا ادھیکار منچ کی نیشنل کنوینر ومل تھوراٹ کہتی ہیں، ''دلتوں کو کسی کیس کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لیے برسوں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ 20 فیصد سے بھی کم کیسز میں سزا ہو پاتی ہے اور نصف سے زائد کیسز کو آگے بڑھایا ہی نہیں جاتا ہے، کیونکہ بالعموم متاثرہ کنبوں پر مختلف طرح کے سخت دباؤ ہوتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ومل تھوراٹ کا کہنا تھا،''بعض ریاستوں میں دلتوں کے خلاف دشمنی اور میڈیکل افسران اور پولیس اہلکاروں کی اعلی ذات کے گروپوں کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجے میں شکایت کنندہ کو مصالحت کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ڈھائی منٹ کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سزا کے طور پر ایک لڑکا کان پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھا ہوا ہے۔ ملزم موٹر سائیکلوں پر بیٹھے ہیں اور وہ لڑکے پر ہنس رہے ہیں، جو خوف کے مارے تھرتھر کانپ رہا ہے۔ ایک ملزم متاثرہ لڑکے سے کہتا ہے، ''دوبارہ ایسی غلطی کرو گے؟‘‘
Published: undefined
میڈیا رپورٹوں کے مطابق متاثرہ دلت لڑکا دسویں کلاس کا طالب علم ہے۔ وہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی ماں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ جب دلت لڑکا اپنی ماں کی مزدوری مانگنے گیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اسے پہلے تو بری طرح مارا پیٹا اور پھر ایک ملزم نے اس سے اپنے پیر چٹوائے۔
Published: undefined
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 10 اپریل کو پیش آیا تھا۔ لیکن ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی اس پر کارروائی کی گئی۔ پولیس نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اصل ملزم نو عمر ہے، اسے لیے اسے بچوں کے اصلاحی مرکز بھیج دیا گیا ہے۔ضلع کے ایک اعلی پولیس افسر کا کہنا تھا، ''متاثرہ طالب علم نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے، جس کے بعد اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف کیس درج کر لیا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
بھارت کی ایک اعشاریہ تین ارب کی آبادی میں سے لگ بھگ 200 ملین افراد دلت ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں ہندو مذہبی روایات کے مطابق بھارتی معاشرے میں سب سے نچلی ذات تصور کیا جاتا ہے۔ گوکہ دلتوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں، تاہم ان پر شاذ و نادرہی عمل ہوتا ہے۔
Published: undefined
دلت خواتین کی بے عزتی، ان کے ساتھ جنسی زیادتی، دلت نوجوانوں کو اچھے کپڑے پہننے حتیٰ کے مونچھ رکھنے پر مارنے پیٹنے کے واقعات عام ہیں۔ شادی کے موقع پر دلت دولہے کا گھوڑے پر سوار ہونا تو غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے مارچ میں بھارتی پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ پچھلے تین برس یعنی سن 2018 سے 2020کے دوران دلتوں کے خلاف جرائم کے ایک لاکھ 38 ہزار 825 واقعات درج کرائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سن 2018 میں 42793 کیس، سن 2019 میں 45961 اور سن 2020 میں 50291 کیسز درج کرائے گئے۔
Published: undefined
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی سن 2021 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں دلتوں کے خلاف جرائم میں 9.3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ دلتوں کے خلاف سن 2020 میں جرائم کے سب سے زیادہ 12714 واقعات اترپردیش میں درج کرائے گئے۔
Published: undefined
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دلتوں کے خلاف جرائم کے واقعات کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہیں۔کیونکہ کافی دوڑ دھوپ اور دباؤ کے بعد بھی صرف پچاس فیصد واقعات میں ہی باقاعدہ کیس درج ہو پاتا ہے۔ اور اگر کیس درج بھی ہو گیا تو ملزموں کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ سزا کی شرح صرف 15.7 فیصد ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula