لندن سے بدھ تیس ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ یہ پانچ طوطے لنکن شائر کاؤنٹی میں جنگلی جانوروں کے ایک مرکز میں رکھے گئے تھے اور ان کے نام بِلی، ایرک، ٹائسن، جیڈ اور ایلسی ہیں۔
Published: undefined
انہیں گزشتہ ماہ اگست میں اس مرکز میں لایا گیا تھا، اور ایک ایسے بہت بڑے پنجرے میں رکھا گیا تھا، جہاں پہلے سے تقریباﹰ 200 طوطے موجود تھے۔
Published: undefined
یہ پانچ طوطے اتنے 'بد زبان‘ تھے کہ وہ ہر وقت گالیاں دیتے رہتے تھے اور اگر کبھی ان میں سے کوئی چپ ہو جاتا، تو کوئی دوسرا طیش دلا کر باقی چاروں کو گالیاں دینے پر مجبور کر دیتا۔
Published: undefined
جنگلی جانوروں کا یہ مرکز ایک بڑے چڑیا گھر جیسا ہے، جس کی انتظامیہ نے ان پرندوں کی 'بد کلامی‘ کا علم ہونے پر پہلے تو اسے عام سی بات سمجھا۔
Published: undefined
Published: undefined
لیکن دن کے وقت جب ان طوطوں نے وہاں آنے والے مہمانوں، حتیٰ کہ بچوں تک کو بھی حسب عادت گندی گالیاں دینا شروع کر دیں، تو انتظامیہ کو اس وجہ سے شرمندگی ہونے لگی۔
Published: undefined
اس مرکز کے انتظامی سربراہ اسٹیو نکولس نے کہا، ''ہمیں یہ سننے کی عادت تو تھی کہ طوطوں نے اگر سیکھ رکھی ہوں، تو وہ کبھی کبھی گالیاں بھی دیتے ہیں۔ زیادہ تر کوئی ایک آدھ پرندہ۔ لیکن اتنی زیادہ گالیاں دینے والے اکٹھے پانچ پرندے تو ہم نے نہ کبھی دیکھے تھے اور نہ ہی یہاں رکھے تھے۔‘‘
Published: undefined
اسٹیو نکولس کے مطابق یہ پرندے انگریزی میں جو مختلف گالیاں دیتے تھے، ان میں سے ایک تو 'ایف‘ سے شروع ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں مہمانوں میں سے کسی نے کبھی ان طوطوں کی 'بد زبانی‘ کی شکایت تو نہیں کی، کیونکہ اکثر شائقین یہ گالیاں سن کر ہنس پڑتے تھے۔ ہمیں لیکن اس وجہ سے شرمندگی ہوتی تھی کہ یہ گالیاں بچے بھی سنتے تھے، جو نامناسب بات ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
اب ان پانچ طوطوں کو ایک دوسرے کو اشتعال دلا کر گالیاں دینے سے روکنے کے لیے کیا یہ گیا ہے کہ مرکز کی انتظامیہ نے انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا ہے۔ لنکن شائر والڈ لائف سینٹر کے چیف ایگزیکٹیو اسٹیو نکولس نے بتایا، ''ہم نے ان کی گالیوں سے تنگ آ کر اب انہیں اس مرکز کے پانچ مختلف حصوں میں منتقل کر دیا ہے، تاکہ نہ وہ ایک دوسرے کو تنگ کریں اور نہ ہر وقت گالیاں دیتے رہیں۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ طوطوں کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بولنے والا طوطا نہ بولنے والے طوطوں کے درمیان اکیلا ہو، تو وہ ایسے الفاظ کم بولتا ہے، جو اس نے انسانوں سے سیکھے ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز