وہ نیلی اور سفید ٹوپیاں پہنتی ہیں، اپنے کلب 'استقلال تہران‘ کا جھنڈا اٹھائے نظر آتی ہیں اور کچھ نے تو اپنے گالوں پر اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کا نمبر پینٹ کر رکھا ہے۔ ''استقلال تہران‘‘ اور ''مس کرمان‘‘ کے درمیان لیگ کا کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی، اسٹیڈیم کے سامنے موجود خواتین شائقین بڑے اچھے موڈ میں نظر آ رہی تھیں۔
Published: undefined
40 سالوں میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ خواتین کو فٹ بال لیگ کےمیچوں میں شرکت کی اجازت ملی ہے۔ ایرانی وزارت کھیل کے ترجمان نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ خواتین کے لیے لگ بھگ 28,000 ٹکٹیں دستیاب ہوں گی۔
Published: undefined
فٹ بال کے دیگر شائقین نے بھی کارڈ کی تقسیم پر تنقید کی۔ 500 ٹکٹوں کے کوٹے کو مختص کرنا زیادہ تر شائقین کے لیے انتہائی سخت اور امتیازی اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹکٹوں تک رسائی کو انتہائی غیر شفاف اور مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ تہران میں مقیم IRIB ریڈیو کی ایک اسپورٹس رپورٹر کے لیے، یہ کھیل صرف ایک آغاز ہے ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''آغاز کے طور پر آپ کو اسے اسی شکل میں قبول کرنا ہوگا - 500 خواتین تماشائیوں کے ساتھ۔ تاہم اگر اسے لیگ کے اگلے گیمز کے لیے اتنا ہی محدود رکھا گیا تو پھر اسے ناقابل قبول قرار دینا ہوگا۔‘‘
Published: undefined
صحر خُدایاری کو بھی فٹ بال سے بے حد الفت تھی۔ 2019 ء میں وہ 29 سال کی تھیں، تب انہوں نے ایک لمبا کوٹ پہننےکے بعد نیلی ویگ لگا کر ایک مرد فٹ بال فین کا روپ دھارا اور تہران کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں داخل ہو گئیں۔ اُن کے اس 'غیر اسلامی حلیے‘ کی وجہ سے انہیں گرفتار کرنے کے بعد تین دن کے لیے جیل بھیج دیا گیاتھا۔ 1979 ء میں ایران میں برسر اقتدار آنے والی '' ملاؤں‘‘ کی حکومت کے نزدیک نیم برہنہ مردوں کور دیکھنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ صحر خُدایاری پر ''عفت یا پاک دامنی کے قانون کی خلاف ورزی، غیر اخلاقی رویے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توہین‘‘ کا الزام عائد کیا گیاتھا۔
Published: undefined
تین دن تک زیر التوا رہنے والے مقدمے کی سماعت کے بعد رہائی ملنے پر صحر خُدایاری نے ایک ڈرامائی فیصلہ کیا۔ انہوں نے تہران کی انقلابی عدالت کے سامنے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ آس پاس موجود راہگیروں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن شدید جھلس جانے کے باعث وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئی تھیں۔خدایاری کی تدفین ان کی جائے پیدائش ُقم شہرکے باہر ان کے اہل خانہ کی عدم موجودگی میں کی گئی۔ حکومت کی طرف سے ان کی آخری رسومات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
Published: undefined
صحر خُدایاری کی ہولناک کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور تب ہی سے فٹ بال کلب استقلال تہران کی علامت ''بلیو گرل‘‘ بن گئی۔ ساتھ ہی ''بلیو گرل‘‘ ایران میں خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کی علامت بھی ہے۔ اُس وقت بین الاقوامی فٹ بال فیڈریشن فیفا نے بھی تہران حکومت پر زور دیتےہوئے کہا تھا کہ ،''ہم ایرانی حکام سے ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس جائز لڑائی میں شامل تمام خواتین کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ ایران کی جانب سے خواتین پر اسٹیڈیم می داخلے کی پابندی کو ختم کیا جا سکے۔‘‘
Published: undefined
فیفا کے باس گیانی 2019 ء میں ایران گئے تھے اور اُس وقت کے صدر حسن روحانی اور ایرانی فٹ بال ایسو سی ایشن کے سابق صدر مہدی تاج کےساتھ انہوں نے دوبدو بات چیت کی تھی اور واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ خواتین کو تمام لیگ گیمز اور بین الاقوامی میچوں تک غیر محدود رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ فیفا نے پہلےاپنے قواعد کی عدم تعمیل پر ردعمل کے طور پر ایرانی فٹ بال ایسوسی ایشن کی رکنیت معطل کر دی تھی۔
Published: undefined
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک سابق ٹی وی اسپورٹس پریزنٹر محمد ہیرانی نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ سن 2007 میں پہلی بار معطلی کے بعد فیفا کی طرف سے قائم کردہ عبوری کمیٹی نے جان بوجھ کر عالمی گورننگ باڈی کو دھوکہ دیا، انہوں نے مزید کہا، ''فیفا کی ہدایات کے برعکس، اس وقت، جب قومی ایرانی فٹ بال فیڈریشن (IRIFF) کے قوانین کا ضروری نیا ورژن تیار کیا جا رہا تھا، ایسوسی ایشن کے معاملات میں سیاست دانوں کی مداخلت کو نہیں روکا گیا۔‘‘ اس ٹی وی میزبان کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ نے کبھی بھی IRIFF کی خود مختاری کو قبول نہیں کیا۔
Published: undefined
IRIFF کی فیفا سے ایک مرتبہ پھر معطلی کا امکان ایرانی فٹ بال پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ ایک بار پھر، ایسوسی ایشن کے معاملات میں حکومت اور پارلیمنٹ کی مسلسل مداخلت کے ساتھ ساتھ اسٹیڈیم میں خواتین کے داخلے کی شرط کی عدم تکمیل اس کی وجوہات ہیں۔ محمد ہیرانی کے بقول، '' ایران میں رائے عامہ اس وقت اپنی فٹ بال ایسوسی ایشن کی ممکنہ معطلی کا خیرمقدم کرتی ہے تاکہ اس سے جڑےنظام کو از سر نو تشکیل دیا جا سکے۔‘‘ ہیرانی کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی ایسوسی ایشن معطلی سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ آزادی اسٹیڈیم میں 500 خواتین کا دورہ ''تاریخی واقعہ‘‘ ہے جو تمام صورتحال کو خوشگوار اور ہموار بنانے کے لیے تعلقات عامہ کی ایک شعبدہ بازی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز