پنجاب یونیورسٹی کے اوریئنٹل کالج کے اسٹاف روم میں انہوں نے اپنے تھیسیس کا کامیاب دفاع کیا۔وائیوا انٹرویو کے کچھ ہی دیر بعد جب انسٹی ٹیوٹ آف پنجابی اینڈ کلچرل سٹیدیز پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن نے سردار کلیان سنگھ کی کامیابی کا اعلان کیا تو اس موقعے پر ننکانہ صاحب سے خاص طور پر لاہور آئے ہوئے درجنوں سکھوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔
Published: undefined
کلیان سنگھ کی 80 سالہ غیر تعلیم یافتہ والدہ ترن کور نے اس موقعے پر فرط جذبات سے بیٹے کا ماتھا چوما اور اسے خوشی سے گلے لگا کر مبارک باد دی۔
Published: undefined
دنیا بھر میں سکھ برادری پہلے پاکستانی سکھ کی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی خوشی منا رہی ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ بھارت سے بھی مبارکبادوں کے ٹیلی فون موصول ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کلیان سنگھ کے دوستوں کی طرف سے ودھائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
Published: undefined
دنیا بھر کے پنجابی ریڈیو ٹی وی چینلوں کی طرف سے سردار کلیان کو انٹرویو کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ننکانہ صاحب کے گوردواروں میں شکرانے کی عبادات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ ان کے بقول بھارتی میڈیا نے بھی حیران کن طور پر ان کی کامیابی کی خبر کو مثبت طور پیش کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے جمعرات کے روز انہیں چائے پر مدعو کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انہیں ڈگری جاری کرنے کے لئے ضابطے مکمل کر رہی ہے۔
Published: undefined
وہ لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پنجابی کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ پنجابی کے ممتاز محقق پروفیسر ڈاکٹر نوید شہزاد کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔ انہوں نے ''گورونانک کی تعلیمات میں انسان دوستی کا فلسفہ‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ تحریر کیا ہے۔ چھ سو صفحات پر مشتمل اپنے تحقیقی مقالے کو انہوں نے اپنی ماں کے نام منسوب کیا ہے۔
Published: undefined
کلیان سنگھ پنجابی مجلے لہراں کے مدیر بھی رہے اور انہوں نے کچھ عرصہ ریڈیو کے لئے بھی کام کیا۔ سانحہ کارساز میں زخمی ہونے والے سردار کلیان کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو سے بہت عقیدت تھی اور وہ بھی انہیں بہت عزیز رکھتی تھیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کلیان سنگھ نے بتایا کہ وہ اب امریکہ، برطانیہ یا یورپ کی کسی یونیورسٹی سے پوسٹ ڈوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنی آئندہ تحقیقی کاوشوں میں وہ اس بات کا کھوج لگانا چاہتے ہیں کہ کیا سوشلزم پنجابی لوگوں کی اقتصادی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں سردار کلیان سنگھ کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی خوشی تو بہت ہے لیکن ان کے بقول اعلی تعلیم کا سفر کوئی آسان نہیں تھا۔ ''جب میں گورنمنٹ گورو نانک کالج میں پڑھتا تھا تو وہاں کے پرنسپل صاحب نے اساتذہ کی سیاست کی وجہ سے کالج سے پنجابی کا مضمون ہی ختم کر دیا تھا۔ اس لئے مجھے اپنی تعلیم پرائیویٹ طالب علم کے طور پر جاری رکھنا پڑی۔ مجھے دُکھ ہے کہ بابا گورو نانک کے شہر میں پنجابی کا مضمون ابھی تک بحال نہیں کروایا جا سکا۔
Published: undefined
سردار کلیان سنگھ کلیان کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے صورتحال بہتر تو ہو رہی ہے لیکن ابھی بھی انہیں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ لائبریری میں کتابیں دیکھتے اور رکھتے ہوئے بھی دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ بے دھیانی میں کوئی لغزش نہ ہو جائے۔ کسی اقلیتی سکالر کے لئے کئی مخصوص موضوعات پر تحقیق کرنا آسان نہیں ہے۔
Published: undefined
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ دوران تحقیق ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ گورونانک کے حوالے سے یہاں زیادہ مواد دستیاب نہیں تھا اور انہیں دنیا کے دوسرے ملکوں سے کتب منگوانی پڑیں۔ یہاں گوردوارہ ڈیرہ صاحب میں سکھوں کی ایک لائبریری ہوا کرتی تھی لیکن بہت پہلے وہ مشتعل مظاہرین کے غصے کی نذر ہو گئی تھی۔ اب حکومت دیال سنگھ لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری کے گورمکھی سیکشن کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
Published: undefined
سردار کلیان کے بہت سے عزیز نہ صرف پارلیمنٹ میں ہیں بلکہ پاکستان میں نمایاں عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ میجر ہرچرن سنگھ پاکستان آرمی، انسپکٹر امرت سنگھ رینجرز، انسپکٹر ناریندر سنگھ موٹروے پولیس، ڈاکٹر میمپال سنگھ کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، پون سنگھ گورنر ہاوس لاہور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
Published: undefined
وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ پاکستان میں سکھوں کو امتیازی طور پر دوسری اقلیتوں پر فوقیت دی جا رہی ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ سکھوں نے اسی سسٹم میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کر کے معاشی طور پر پاکستانی معاشرے میں کچھ گنجائش حاصل کی ہے۔ '' میرے خیال میں تعلیم ہی اقلیتوں کو آگے لے جا سکتی ہے سب اقلیتوں کو اسی ماڈل کو اپنانا چاہیئے۔ ‘‘
Published: undefined
’ ہماری بچیاں تعلیم اور ملازمت کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ کئی والدین جبری مذہب تبدیلی کے خوف سے انہیں گھر سے نکالنے کو تیار نہیں ہیں۔ اقلیتوں کے فیملیز لاز نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت مشکلات ہیں۔ سن 2016 میں سکھ میرج ایکٹ اور سن 2017 میں ھندو میرج ایکٹ منظور ہوا تھا لیکن اس کے رولز آف بزنس ابھی تک نہیں بن سکے ہیں‘‘
Published: undefined
سردار کلیان سنگھ کی خواہش ہے کہ کسی طرح ماضی کا وہ زمانہ لوٹ آئے جب معاشرے میں برداشت تھی اور مسلم آبادی اقلیتوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتی تھی اور سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ '' مجھے ایک مسلمان ماسٹر بشیر آج بھی یاد ہیں جو بچپن میں اپنے سائیکل پر بٹھا کر مجھے اسکول لے جایا کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مثالیں ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ کلیان سنگھ کلیان شادی شدہ ہیں۔ وہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز