امریکی اور طالبان حکام دونوں نے دوحہ میں ہونے والی دو روزہ بات چیت کی تصدیق کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے واشنگٹن میں جاری کردہ ایک بیان میں بتایا، '' 30 اور 31 جولائی کو قطر میں دوحہ میں طالبان کے اعلیٰ نمائندوں اور سینیئر ٹیکنوکریٹ پروفیشنلز کے درمیان ملاقات ہوئی... تاکہ انتہائی اہم مفادات کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہے۔‘‘
Published: undefined
دوسری طرف طالبان کے اعلیٰ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس میٹنگ کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اس کی اطلاع دی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور ان کی ٹیم کے ساتھ دوحہ میں ملاقات کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
Published: undefined
اس میٹنگ میں افغان خواتین کے لیے خصوصی امریکی سفیر رینا امیری اور افغانستان میں امریکی مشن کی سربراہ کارین ڈیکر بھی موجود تھیں۔ بات چیت میں افغان مرکزی بینک کے اثاثوں کی واپسی پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکہ نے منجمد کر رکھے ہیں۔
Published: undefined
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ افغان عوام کے ان مطالبات کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے کہ ان کے حقوق کا احترام کیا جائے اور افغان قوم کے مستقبل کی تشکیل میں ان کی آواز سنی جائے۔
Published: undefined
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ملر نے کہا کہ امریکی حکام نے طالبان پر زور دیا کہ وہ ''افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال، بالخصوص خواتین، لڑکیوں اور کمزور طبقات سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کریں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام نے حراستوں، میڈیا کے خلاف کارروائیوں اور مذہبی رسومات پر پابندیوں کے حوالے سے بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور ''افغان عوام کے ان کے حقوق کا احترام کیے جانے اور مستقبل کی تشکیل میں ان کی رائے کو شامل کرنے کے مطالبات‘‘ کی حمایت کی۔
Published: undefined
میتھیو ملر نے کہا کہ امریکی حکام نے طالبان کے ''امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے لیے افغانستان کی سرزمین کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے مسلسل عزم کا نوٹس لیا، اور دونوں فریقوں نے سکیورٹی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے طالبان کی کوششوں پر تبادلہ خیال بھی کیا۔‘‘
Published: undefined
طالبان حکام نے طالبان رہنماؤں پر سے سفری اور دیگر پابندیاں اٹھانے اور بیرون ملک افغان مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ زیادہ تر طالبان رہنماؤں کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی اجازت درکار ہوتی ہے اور افغانستان کا بینکنگ سیکٹر بھی طالبان انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے مفلوج ہو چکا ہے۔
Published: undefined
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اعتماد سازی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیاں ختم کی جائیں اور مرکزی بینک کے اثاثوں کو غیر منجمد کر دیا جائے تاکہ افغان غیر ملکی امداد پر انحصار نہ کرنے والی ملکی معیشت قائم کر سکیں۔
Published: undefined
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد نیو یارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں افغان مرکزی بینک کے تقریباً سات بلین ڈالر کے فنڈز منجمد کر دیے گئے تھے۔ ان میں سے نصف فنڈ اب سوئٹزرلینڈ میں قائم افغان فنڈ میں ہیں۔
Published: undefined
امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی اور طالبان حکام نے افغانستان میں بہتر مالیاتی اعداد و شمار اور افراط زر میں کمی سے متعلق بھی مثبت بات چیت کی۔ اسی طرح 2022 کی پابندیوں کے تحت پوست کی کاشت میں کمی کو بھی سراہا گیا۔ امریکی وفد نے انسداد منشیات پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے کھلے پن کا اظہار کیا اور کہا امریکہ بھی معاشی استحکام کے مسائل کے حوالے سے جلد ہی تکنیکی بات چیت کرنے پر تیار ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز