بھارتی صوبے راجستھان کے بوندی ضلع کے چھاڈی گاؤں میں پیر کے روز شری رام میگھوال جب گھوڑی پر سوار ہو کر اپنی دلہن دروپدی کے گھر پہنچے تو ان کے ساتھ ڈنڈا بردار پولیس کی ایک نفری بھی موجود تھی۔ لیکن یہ پولیس والے باراتی نہیں تھے بلکہ ہندوؤں میں سب سے نچلی ذات کے سمجھے جانے والے دلت میگھوال کی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے حملے سے بچانے کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔
Published: undefined
چھاڈی گاؤں کے لیے یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس گاؤں کے لوگوں نے آج تک کسی دلت دولہے کو گھوڑی پر سوار نہیں دیکھا تھا۔ انہیں یہ خوف بھی ستا رہا تھا کہ کہیں اعلیٰ ذات کے ہندو ان پر حملہ نہ کر دیں۔ ان کا یہ خوف بے جا بھی نہیں تھا کیونکہ ایک روز قبل ہی پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع میں دلت دولہے کے گھوڑے پر سوار ہونے کے "جرم " میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اس پر حملہ کر دیا تھا۔
Published: undefined
کسی ناخوشگوار واقعے کے خدشے کے پیش نظر چھاڈی گاؤں میں مختلف مقامات پر بھی پولیس تعینات کر دی گئی تھی، جو ہر ایک راہگیر پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ یہ سارا انتظام راجستھان حکومت کے آپریشن مساوات کے تحت کیا گیا تھا، جس کے تحت حکومت دلتوں کے ساتھ برسوں سے جاری سماجی تفریق کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
Published: undefined
ستائیس سالہ میگھوال نے سفید شیروانی پہن رکھی تھی، اس نے ایک تلوار بھی باندھ رکھی تھی اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ بارات کے ساتھ میوزک بینڈ والے چل رہے تھے اور موسیقی کی دھنوں پر عورتیں اور مرد تھرک رہے تھے۔
Published: undefined
میگھوال نے بڑے فخریہ لہجے میں کہا، "میں گھوڑی پر سوار ہو کر ان گلیوں سے گزرنے والا پہلا دلت دولہا بن گیا ہوں۔ اس سے لوگوں کی ذہنیت تبدیل ہوگی کہ دلت نیچ ہیں تو نیچ ہی رہنے دو۔ یہ مساوات کے جانب ایک قدم ہے کیونکہ اب تک نچلی ذات کے کسی ہندو دولہے کو گھوڑی پر سوار ہو کر اپنی بارات لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
Published: undefined
بھارت کو برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے تقریباً پچھتر برس گزر چکے ہیں اور یہ دنیا کی تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشتوں کی اولین صف میں خود کو شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم بھارت میں سماجی عدم مساوات، اونچ نیچ اور تفریق اب بھی عام ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار دلت ہوتے ہیں، جنہیں ہندوؤں میں مذہبی لحاظ سے سب سے نچلے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
دلت خواتین کی بے عزتی، ان کے ساتھ جنسی زیادتی، دلت نوجوانوں کو اچھے کپڑنے پہننے حتیٰ کے مونچھ رکھنے پر مارنے پیٹنے کے واقعات عام ہیں۔ شادی کے موقع پر دلت دولہے کا گھوڑے پر سوار ہونا تو غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
راجستھان پولیس نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں دلت دولہوں کو گھوڑے پر سوار ہونے سے روکنے کے 76کیس درج کرائے گئے۔ تاہم عام رائے یہ ہے کہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ دلت انتقام کے ڈر سے پولیس میں معاملہ درج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔
Published: undefined
بوندی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ایس پی جے یادو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ نے "آپریشن مساوات" شروع کیا ہے اور گاؤں میں مساوات کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں، جن میں مقامی سرپنچ، پولیس اور پولیس کے معاونت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ کمیٹی دلت کنبوں سے ملاقات کرکے ان کے حقوق سے انہیں آگاہ کرتی ہے۔
Published: undefined
جے یادو نے بتایا کہ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دلتوں کی شادی میں گھوڑا استعمال کرنے پر کوئی مسئلہ پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شری رام میگھوال کی شادی کو خوش اسلوبی سے تکمیل تک پہنچانے کے لیے 60 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
Published: undefined
اتوار کے روزہی مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع میں ایک دلت دولہے دلیپ اہیروار کو گھوڑے پر سوار ہونے کی قیمت چکانا پڑی۔ اعلیٰ ذات کے ہندووں نے اس کے گھر پر حملہ کرکے گاڑی اور دیگر سامان کو نقصان پہنچایا۔
Published: undefined
پولیس نے حملہ آور اعلیٰ ذات کے 20 ہندووں کے خلاف کیس درج کرلیا ہے اور متاثرہ کنبے کے گھر کے باہر پولیس تعینات کردی ہے۔
Published: undefined
دلت رہنما اور سابق رکن پارلیمان ادت راج نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ کر کے کہا، " دلتوں کو مسلمانوں سے کوئی خوف نہیں ہے بلکہ انہیں نام نہاد اعلیٰ ذات سے خطرہ ہے۔ ساگر میں ایک دلت دولہے پر حملہ کیا گیا کیونکہ اس نے گھوڑے پر سوار ہونے کی جرأت کی تھی۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز