پانچویں مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی رجب طیب اردوآن کا دور اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہوگیا ہے۔ لیکن انہیں شدید اقتصادی بحران سے لے کر اتحادیوں کے ساتھ سفارتی تعطل جیسے متعدد مسائل درپیش ہیں۔
Published: undefined
ایردوآن کی تازہ ترین فتح نے انہیں ایک صدی قبل مصطفٰی کمال اتاترک کی طرف سے جمہوریہ کی بنیاد رکھنے کے بعد سے ترکی کے طویل ترین عرصے کے لیے خدمات انجام دینے والا حکمراں بنادیا ہے۔ اس سے ان کی غیر روایتی اقتصادی، ملکی اور خارجہ پالیسیوں کو تقویت ملے گی۔
Published: undefined
اپنی دو دہائیوں کے دور حکومت کے دوران ترکی کی قدامت پسند جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی(اے کے پی) کے رہنما نے سیکولر حکمرانوں کے دور میں مبینہ طورپر خود کو پسماندہ محسوس کرنے والے عوام کی حوصلہ افزائی اور اسلامی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ لیکن متعدد اہم مسائل ایردوآن کے منتظر ہیں، جن میں ایک تباہ کن اقتصادی بحران سے لے کر اتحادیوں کے ساتھ سفارتی تعطل شامل ہیں۔
Published: undefined
افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح نے ترکوں کی قوت خرید ختم کردی ہے۔ گزشتہ برس 85 فیصد تک پہنچ جانے والی افراط زر کی شرح اپریل میں بھی 40 فیصد تھی۔ ایردوآن نے اس امید پر شرح سود میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس سے افراط زر کی شرح میں کمی آئے گی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کچھ راحت ملے گی لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
Published: undefined
ترکی کی کرنسی لیرا پچھلے دو سالوں میں اپنی نصف سے زیادہ قدر کھوچکی ہے اور جمعے کے روز ایک ڈالر کی قدر 20 لیرا تک پہنچ گئی تھی۔ سرکاری اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لیرا کو سہارا دینے کے لیے مرکزی بینک کو ماہانہ 25 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
نیٹو کے رکن ممالک چاہتے ہیں کہ انقرہ سویڈن کے خلاف ویٹو کو جلد از جلد ختم کرے تاکہ اسے بھی امریکہ کی قیادت والے اس فوجی اتحاد میں شامل کیا جاسکے۔ یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد ہی فوجی ناوابستگی کی اپنی دیرینہ روایت کو ختم کرتے ہوئے سویڈن نے بھی اپنے پڑوسی فن لینڈ کے ساتھ نیٹو اتحاد میں شمولیت کی درخواست دی تھی۔ لیکن انقرہ نے یہ کہتے ہوئے اس کی کوششیں روک دی ہیں کہ اسٹاک ہوم کالعدم کرد عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے اور انہیں ترکی کے حوالے نہیں کررہا ہے۔
Published: undefined
سویڈن نے انسداددہشت گردی کے متعلق ایک نیا قانون بھی منظور کیا ہے تاہم ترکی نے اپنے موقف میں کوئی نرمی نہیں کی ہے۔ نیٹو کے وزرائے خارجہ کی اگلے چند دنوں میں میٹنگ ہونے والی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ جولائی میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے قبل اس معاملے میں کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔
Published: undefined
شام میں طویل اور سنگین خانہ جنگی کے دوران ایردوآن نے بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے ہتھیار اٹھانے والی قوتوں کی حمایت کی تھی جس کی وجہ پڑوسی ملک کے ساتھ ترکی کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ حالانکہ ایردوآن نے حالیہ مہینوں میں تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن روس کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ عرب ملکوں کے ساتھ برسوں الگ تھلگ رہنے کے بعد بشارالاسد کے تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔
Published: undefined
ترکی کے کسی بھی سربراہ مملکت کے ساتھ ملاقات کے لیے اسد کی پیشگی شرط ہے کہ انقرہ باغیوں کے کنٹرول والے شمالی شام سے ترک افواج کو واپس بلائے اور مسلح گروپوں کی حمایت ختم کرے۔ ترکی ان تیس ملین سے زائد شامی مہاجرین کو بھی واپس بلانے کا مطالبہ کرتا ہے جنہوں نے تصادم شروع ہونے کے بعد ملک چھوڑ کر ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔
Published: undefined
فروری میں آنے والے زلزلے نے جنوب مشرقی ترکی کے بڑے حصے کو تباہ کردیا اور اس میں پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ بہت سے شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان کے علاوہ تباہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی اورسماجی چیلنجز چار ماہ بعد بھی برقرار ہیں۔ لاکھوں افراد اب بھی خیموں یا عارضی رہائش گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
Published: undefined
حکومت کے مطابق تعمیر نو کے لیے 100ارب ڈالر سے زائد کے خرچ کا اندازہ ہے اور تعمیرنو کا کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان متعدد امور پر اختلافات موجود ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی یہ مسائل برقرار رہیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز