قانونی دستاویزات کے حامل نہ ہونے پر ہزاروں افغان باشندوں کی اچانک روانگی نے ایک بزرگ پاکستانی خاتون بی بی جوزارہ کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے وہ افغانستان کی سرحد سے متصل جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں اپنے فارم کی دیکھ بھال کے لیے افغان مہاجرین پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے گزشتہ ماہ تقریباً 1.7 ملین غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدری کا حکم دیے جانے کے بعد سے وہ اپنی زمین پر سیب کے درختوں اور انگور کی بیلوں کی کٹائی اور کھاد بنانے کے لیے ہنر مند کارکنوں کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
Published: undefined
ان کے مطابق، ''یہ باغات کے لیے بہت اہم وقت ہے، ان میں کھاد ڈالے جانے کا موسم ہے لیکن میرے پاس اس کام کے لیے لوگ ناکافی ہیں۔" جوزارہ کے پاس پانچ افغان پشتون خاندان ملازمت کرتے تھے۔یہ لوگ 1979 میں سوویت حملے کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں آبسے تھے۔
Published: undefined
پاکستان میں پیدا ہونے اور پرورش کے باوجود افغان مہاجرین کی نئی نسلیں کھیتی باڑی کرنے اور خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے اپنے آجر پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن حالیہ تارکین وطن مخالف پالیسیوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں زیادہ تر افغان باشندے بلوچستان اور شمال مغربی خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں رہ رہے تھے۔ یہ دونوں صوبے افغانستان کی سرحد سے ملحق ہیں۔ یہاں مقیم تارکین وطن کو کبھی دستاویزات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور وہ عموماً چند علاقوں تک ہی محدود رہے۔
Published: undefined
اس سال کے شروع میں پاکستانی حکومت کی جانب سے ان افغان خاندانوں کو جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں تھے پاکستان سے نکل جانے کا کہا گیا، ایسا سکیورٹی خدشات اور اقتصادی مشکلات کے پیش نظر کیا گیا۔ پاکستانی حکام کے اس وعدے کے باوجود کہ 2.3 ملین وہ افغان تارکین وطن فی الحال ملک میں رہنے کے مجاز ہیں تاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ حکومت تمام تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
Published: undefined
افغان مزدور سستے، ہنر مند اور محنتی ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تاہم ان کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے اب پاکستان کو سرحدی علاقوں میں زراعت اور کان کنی جیسے شعبوں میں مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے۔
Published: undefined
بلوچستان کے ضلع دوکی سے تعلق رکھنے والے جہانگیر شاہ کوئلے کی کان کے مالک ہیں۔ ان کی کان میں کام کرنے والوں میں 60 فیصد سے زائد ملازمین کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے مطابق وہ اتنے کم عرصے میں نئے ملازمین ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ بہتر اجرت کے باوجود اس کام کے لیے یہاں نہیں آنا چاہتے۔‘‘
Published: undefined
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور پشتون سردار محمد شفیق ترین نے خبردار کیا ہے کہ صوبے بھر میں کانوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے تقریباً 80 فیصد کارکن افغان تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانوں کے اخراج سے پاکستان سے افغانستان بھیجی جانے والی ترسیلات بھی بند ہو جائیں گی، جس کے باعث اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچے گا۔
Published: undefined
مختلف سیاسی جماعتیں اور تاجر تنظیمیں 20 اکتوبر سے سرحدی شہر چمن میں دھرنا دے کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ انہوں نے مہاجرین مخالف پابندیوں کے تناظر میں ویزا پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے بلوچستان چیپٹر کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ کے مطابق صوبے کی کانوں میں کام کرنے والے نصف سے زیادہ افغان ملک چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے صورتحال پریشان کن ہے۔
Published: undefined
کاکڑ نے کہا کہ کان کے مالکان نے حال ہی میں نگراں وزیر داخلہ سے ملاقات بھی کی اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا کہ افغان کارکنوں کو بلاوجہ پریشان نہ کیا جائے۔ لیکن کاکڑ کے مطابق یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined