''ویگان‘‘ کے عالمی دن کے موقع پر ڈی ڈبیلو نے انسانوں کی گوشت خوری کی عادت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی اور اندازہ لگایا کہ انسان کی گوشت خوری اس سیارے کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔
Published: undefined
انسان زمانہ قبل از تاریخ سے گوشت کھاتا آیا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ گوشت کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ محض گزشتہ پچاس برسوں کے دوران دنیا بھر میں گوشت کی سالانہ پیداوار چار گنا اضافے کے ساتھ 350 ملین ٹن ہو چُکی ہے۔ اس رجحان میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2050 ء تک دنیا بھر میں گوشت کی پیداوار 455 ملین ٹن تک ہو جائے گی۔
Published: undefined
سائنسدان طویل عرصے سے انسانوں کی گوشت خوری اور اس کی کھپت کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی طور پر تیار کیے جانے والے گوشت کی کھپت پر۔ ماہرین اس سارے عمل کو مناسب قرار نہیں دیتے کیونکہ اس کی پیداوار کے لیے بہت زیادہ توانائی، پانی اور زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کاشت کاری کے ماحولیات پر اثرات کے بارے میں کرائے جانے والے ایک مطالعے سے پتا چلا کہ مثال کے طور پر مٹر کی کاشت کے مقابلے میں گوشت کی پیداوار چھ گنا زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے اور اس دوران 36 گنا زیادہ اراضی بھی استعمال کی جاتی ہے۔
Published: undefined
ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت اور دودھ کی مصنوعات سے پرہیز ہمارے سیارے پر منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور اہم ترین طریقہ ہے۔ مزید برآں گوشت اور دودھ کی کھپت کے بغیر عالمی سطح پر فارمنگ کے لیے اراضی کے استعمال میں بھی 75 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ وائلڈ لائف WWF کے ذرائع کے مطابق عالمی حیاتیاتی تنوع کو 60 فیصد نقصان گوشت والی غذا کی وجہ سے ہوتا ہے۔
Published: undefined
تمام تر مذکورہ نقصانات جاننے کے باوجود ہم میں سے زیادہ تر افراد گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ جرمن شہر ٹریئر کی یونیورسٹی سے منسلک معاشرتی نفسیات کے ایک ماہر بنجامن بُٹلر اس رجحان کی وجہ دیرینہ عادات، ثقافت اور اسے جسم کے لیے ضروری سمجھنے، کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''میرے خیال میں بہت سارے لوگ صرف ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہت سے روایتی کھانے گوشت کے مخصوص پکوانوں کے گرد گھومتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جانوروں کا گوشت کھانے کی عادت کا مطلب ہے کہ ہم اکثر خود سے یہ سوال تک نہیں کرتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، ''گوشت خوری کی عادت زیادہ تر وقت ہمیں یہ سوچنے سے روکتی رہتی ہے کہ گوشت کا استعمال درحقیقت بُرا ہے۔‘‘ زیادہ تر وقت، یہ عادت ہمیں یہ سوچنے سے روکتی ہے کہ گوشت کا استعمال درحقیقت برا ہے کیونکہ یہ صرف وہ چیز ہے جو ہم ہر وقت کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
گوشت کھاتے وقت ہمیں بالکل یہ احساس نہیں ہوتا کہ جس جانور کا گوشت ہماری مرغوب غذا بنا ہے اُسے کتنی تکلیف سے گزرنا پڑا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پلیٹ میں گوشت پکوان کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پلیٹ میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو ہمیں کسی جانور کی یاد دلائے۔ جرمن ماہر سماجی نفسیات ُبٹلر کہتے ہیں کہ گوشت کھانے والوں کا جب ویگان یا ویجیٹیرین یا پھر جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عناصر سے سابقہ پڑتا ہے اور ایک مختلف نقطہ نگاہ سے جب گوشت خور اس موضوع پر کسی کی گفتگو سنتے ہیں تو اپنے اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک آسان منطق یہ پیش کی جاتی ہے،'' انسانوں نے ہر دور میں گوشت کھایا ہے۔‘‘ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ سمجھنا مردوں کا خاصا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چند ارتقائی غلط فہمیوں کا سماجی رویوں سے گہرا تعلق رہا ہے۔ مثال کے طور پر جانوروں کا شکار اور گوشت کا استعمال مردوں کی طاقت اور شجاعت کی نشانی سمجھا جاتا رہا ہے۔
Published: undefined
ایک طویل عرصے تک سائنسدانوں کا یہ ماننا تھا کہ ہمارے آباؤاجداد کی انسانی جسم کی شکل میں نشوونما کی بڑی وجہ ان کا گوشت کھانا تھا اور یہ کہ ہومو ایریکٹس یا قدیم زمانے کی انسانی شکل جیسی ایک مخلوق جس کا دماغ چھوٹا ہوا کرتا تھا اُس کے دماغ کو بڑا بنانے اور دماغی نشو و نما کے لیے توانائی کی ضرورت تھی اور یہ انرجی گوشت اور ہڈیوں کے گودے سے حاصل کی گئی ۔ یہ مفروضہ دو ملین سال قبل کے دور کے بارے میں ہے۔ ایک نئے مطالعے نے تاہم اس مفروضے کو چیلنج کیا اور اس نے انسانی ارتقاء میں گوشت کے استعمال کی اولین یا ناگزیر حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined