اس رپورٹ کے مطابق سن 2015 اور سولہ کے پہلے دور کے مقابلے میں سال 2020 اور 21 کے دوران بیس فیصد غریب عوام کی آمدن میں تقریباﹰ 53 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ بھارت میں نوے کے عشرے میں آزادانہ معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد سے ہر برس غریب طبقے کی آمدن میں اضافہ اور غربت میں کمی درج کی جاتی رہی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
اس تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس کی مدت میں، بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدن میں 39 فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ یہ رپورٹ بھارت میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان معاشی سطح پر بڑھتے ہوئے فرق کو واضح کرتی ہے۔
Published: undefined
یہ تازہ سروے صنعتی شہر ممبئی کے ایک تھنک ٹینک ’پیپلز ریسرچ آن انڈياس کنزیومر ایکونومی‘ (پی آر آئی سی ای) نے کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے پہلے دور میں 2021ء کے اپریل اور اکتوبر کے درمیان دو لاکھ گھروں کا جائزہ لیا اور پھر دوسرے مرحلے میں 42 ہزار مزید گھروں کا سروے کیا گيا۔ اس میں ملک کے 100 اضلاع کے 120 شہروں سمیت آٹھ سو دیہاتوں کا جائزہ شامل ہے۔
Published: undefined
اس سروے کے مطابق کووڈ انیس کی وجہ سے سن 2020 اور اکیس کے دوران بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار میں سات اعشاریہ تین فیصد کی مجموعی گراوٹ درج کی گئی اور سب سے زیادہ شہروں میں بسنے والے غریب افراد متاثر ہوئے۔
Published: undefined
اس کے مطابق ملک کے بیس فیصد غریب ترین افراد کی آمدن میں تقریبا 53 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ نچلے اوسط درجے کے طبقے کی آمدن میں بھی تقریبا 32 فیصد کی کمی آئی۔ اس کے برعکس متوسط درجے کے اعلیٰ بیس فیصد طبقے اور بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی گھریلو آمدن میں بالترتیب سات اور 39 فیصد کا اضافہ دیکھا گيا۔
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں سن 2005 سے سن 2016، یعنی گیارہ برسوں کے دوران، غریبوں کی آمدن میں اوسطاً 183 فیصد کا اضافہ درج کیا گيا تھا اور اس کے مقابلے میں امیر ترین طبقے کی دولت میں اوسطاﹰ اضافہ 34 فیصد تک رہا تھا۔
Published: undefined
سروے میں کہا گيا ہے کہ نوے کے عشرے میں جب لبرل اکنامک پالیسی کا نفاذ کیا گيا تھا تو اس کے بعد سے بھارت میں مسلسل غریب طبقے کی آمدن میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس طرح غربت کا بھی خاتمہ ہوتا رہا، تاہم کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پہلی بار غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
معاشی امور کے ماہر پروفیسر امیراللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر کہ بھارت میں معاشی بحران کووڈ کی وجہ سے ہے، درست نہیں بلکہ اس کی ابتدا سن 2016 میں ہی ہو گئی تھی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ بھارتی معیشت کے زوال کی ابتدا بھارتی کرنسی پر پابندی (نوٹ بندی) سے شروع ہوئی تھی اور پھر بھارت نے جی ایس ٹی کے تحت جو نیا ٹیکس نظام نافذ کیا اس نے مزید اثر ڈالا اور پھر جو باقی بچا بھی تھا، ’’اسے کورونا کی صورت حال نے تباہ کر دیا۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا، ’’جب بھی کسی ملک کی معیشت خراب ہوتی ہے تو اس سے سب سے پہلے جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ غریبوں کا ہے اور ان تینوں وجوہات کا بھی زیادہ اثر بھارت کے غریبوں پر ہی پڑا ہے۔ حکومت نے بھی اس سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کیں۔ جیسے کہ وہ امیر ترین طبقے یا کمپنیوں پر اضافی ٹیکس سے غریبوں کی مشکلات کم کر سکتی تھی، تاہم اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر امیر اللہ خان نے بتایا کہ جب بھی کورونا جیسی ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو حکومتیں غریبوں پر پڑنے والے معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔’’بیشتر ملکوں نے ایسا کیا بھی، یعنی بے روز گاری بھتہ کی صورت میں یا پھر دیگر ذرائع سے غریب عوام کو رقوم فراہم کی گئی ہیں، تاہم بھارت میں ایسا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب گزشتہ تقریباﹰ پچیس برسوں کے دوران آمدن میں کمی کے سبب بھارت میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق کووڈ کے دور میں جہاں ایک طرف مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا وہیں بھارت میں غریب طبقے کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے دن مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
انہوں مزید کہا کہ اس کے برعکس امیر ترین طبقے کی دولت میں اس لیے اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کی ہنگامی صورت حال میں عوام پریشان ہوتی ہے اور وہ اپنی بقا کے لیے پیسے خرج کرتی ہے جس سے سرمایہ دار فائدہ اٹھاتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined