امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے ایک کاؤنٹی ضلعی اٹارنی نے بتایا کہ 59 سالہ قیدی ماؤرائس ہیسٹنگ کو 1983 میں قتل کے ایک اور اقدام قتل کے دو الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی، تاہم اس مقدمے میں ڈی ای اے ٹیسٹ نہیں ہوئے تھے۔
Published: undefined
ڈی این اے کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ یہ جرائم اصل میں ایک اور شخص نے کیے جو دیگر الزامات کے تحت قید تھا اور دو برس قبل فوت ہو چکا ہے۔ اس قیدی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
Published: undefined
پراسیکیوٹرز کی جانب سے عدالت سے ماؤرائس ہیسٹنگ کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس بابت کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، لاس اینجلس کے پروجیکٹ 'معصوم‘ سے جڑے وکلا بھی پیش پیش تھے۔
Published: undefined
جمعے کے روز رہائی کے بعد ہیسٹنگ نے پریس کانفرنس میں کہا، ''میں برسوں اس دن کے لیے دعا کرتا رہا ہوں۔ مجھے کسی پر الزام نہیں لگانا اور نہ میں کوئی کڑوی بات کرنا چاہتا ہوں۔ اب مجھے جو زندگی ملی ہے میں اسے جینا چاہتا ہوں۔‘‘
Published: undefined
ڈسٹرکٹ اٹارنی جورج گیسکن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیسٹنگ کے ساتھ شدید نوعیت کی ناانصافی ہوئی ہے۔ ''نظام انصاف کامل نہیں ہے اور جہاں ہم نئے شواہد کی بنیاد پر کچھ نیا سیکھتے ہیں، جس سے کسی کے جرم کی صحت سے متعلق سوال پیدا ہو رہے ہیں، تو ہم پر لازم ہے کہ ہم فوری طور پر آگے بڑھیں۔‘‘
Published: undefined
ہیسٹنگ کو روبیرٹا ویڈرمیئر پر جنسی حملے اور سر پر گولی مار کر قتل کرنے کا الزام تھا۔ مقتولہ کی لاش لاس اینجلس کے نواح میں کھڑی گاڑی کے ٹرنک سے ملی تھی۔ ہیسٹنگ کو 'خصوصی حالات میں قتل‘ کرنے کے الزام کا سامنا تھا اور اس کے لیے اٹارنی کی جانب سے موت کی سزا کی استدعا کی گئی تھی، تاہم اس بابت جیوری اختلاف کا شکار رہی۔
Published: undefined
سن 1988 میں اس مقدمے کی دوسری جیوری نے ہیسٹنگ کو مجرم قرار دیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اس میں پیرول پر رہائی کا کوئی امکان نہ رکھا گیا۔
Published: undefined
ہیسٹنگ اپنی گرفتاری سے لے کر قید تک مسلسل اصرار کرتے رہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ مقتولہ کی آٹوپسی کے ذریعے پتا چلا تھا کہ اسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ہیسٹنگ نے سن دو ہزار میں اس بابت ڈسٹرکٹ اٹارنی دفتر سے ڈی این اے ٹیسٹنگ کی استدعا کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا۔
Published: undefined
گزشتہ برس ہیسٹنگ نے ایک مرتبہ پھر اپنے بے قصور ہونے کا دعویٰ دائر کیا اور گزشہ برس جون میں ڈی این اے ٹیسٹنگ سے ثابت ہوا کہ مقتولہ کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے کے نمونے ہیسٹنگ کے نہیں بلکہ ایک اور مقدمے میں قید رہنے اور پھر فوت ہونے جانے والے ایک اور مجرم کے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز