سماج

کیا افریقہ میں جمہوریت کی ضرورت ہے؟

افریقہ میں حالیہ فوجی بغاوتوں کے تناظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اس براعظم میں جمہوری نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کیا مغربی اقوام کو افریقی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات پر دوبارہ سوچنا ضروری ہو گیا ہے؟

علامتی فائل تصویر
علامتی فائل تصویر 

تاریخ میں سن 2021 ایک ایسا سال رہا جب افریقی ملکوں میں فوجی بغاوتیں پھر سے پلٹ آئی ہیں۔ چند مہینوں میں مالی، گنی، سوڈان اور چاڈ میں درجنوں بغاوتیں اور حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششیں کی گئیں۔ سن 2022 میں بھی پچھلے سال سے کوئی سبق حاصل نہیں ہوا اور گزشتہ ہفتے برکینا فاسو میں فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔

Published: undefined

لوگ جانتے ہیں کہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں افریقی براعظم کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کا دور دورہ تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ لوگوں کا صبر جب ختم ہو جاتا ہے تو فوج سویلین حکومت کو فارغ کر کے اقتدار سنبھال لیتی ہے۔

Published: undefined

مغربی معیارات اور منتخب افریقی رہنما

افریقی ممالک میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا جمہوری نظامِ حکومت اس براعظم کے لیے ایک مناسب طرزِ حکومت ہو سکتا ہے۔ یہ بحث اس وقت سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ کئی افراد نے جمہوریت سے بیزاری کے ساتھ ساتھ مغرب دشمنی کے اظہار کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس مایوسی کی وجوہات حقیقت میں منتخب لیڈروں میں مطلق العنانیت کے چھپے رویے اور غریب عوام کے باوجود شاہانہ طرز زندگی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان افریقی لیڈروں میں یہ بھی نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنے مخالف جذبات کو جگہ دیں اور دستور میں مناسب تبدیلیاں بھی پیدا کریں۔

Published: undefined

یہ تمام حکومتی تبدیلیاں ان اقوام کے سامنے پیدا ہو رہی ہیں، جو خود کو جمہوری طرزِ حکومت کا داعی سمجھتی ہیں۔ ان اقوام کا تعلق مغربی یورپ اور شمالی امریکا سے ہے۔ تادیبی اقدامات اٹھانے کے بجائے یہ اقوام افریقی ممالک کے جمہوری طور پر منتخب مگر آمرانہ طرزِ حکومت کو پسند کرنے والے رہنماؤں کو اپنے اقتصادی مفادات کے تناظر میں جائز حکمران قرار دیتی ہیں۔ ان حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کو بھی نظارانداز کر دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

مغربی اقوام کی چشم پوشی اور تنقید

یورپ اور شمالی امریکا کی جانب سے بہتر نظام حکومت کو فروغ دینے، غربت کم کرنے اور انسدادِ بدعنوانی کے لیے اربوں ڈالر بھی فراہم کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ افریقہ کے آمرانہ طرزِ حکومت رکھنے والے لیڈروں کی مالی معاونت بھی کی گئی تا کہ وہاں کے قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

Published: undefined

امریکا، فرانس، جرمنی اور ناروے نے یوگنڈا میں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں، کیمرون، کینیا اور نائجیریا میں پولیس کے تشدد پر کھلے انداز میں تنقید بھی کی۔

Published: undefined

دوسری جانب جمہوریہ کانگو داخلی انتشار کا شکار ہے لیکن مغرب کو کوئی مسئلہ نہیں اس وقت تک جب تک وہاں کے معدنی ذخائر کوبالٹ اور کولٹان تک انہیں رسائی حاصل ہے کیونکہ یہ سمارٹ فون، سمارٹ کاروں اور سمارٹ گھروں کے لیے درکار ہیں۔

Published: undefined

ان دہرے معیارات نے اس پوری صورت حال میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ساٹھ برسوں تک ترقیاتی امداد دینے کے باوجود افریقی ممالک کے لوگ بدستور غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور خانہ جنگی جیسے حالات کا سامنا ہے۔

Published: undefined

خیر خواہ، نیک نام اور مہربان آمروں کی تلاش

ایسے آمروں کی تلاش میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سابق ایگزیکٹو ڈامبیسا مویو اور کینیا کے سیاسیات کے پروفیسر پیٹرک لوخ اوٹینو بھی شامل ہیں۔ ان کے نزدیک خیر خواہ و مہربان آمر کی موجودگی اہم ہے بھلے اس کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ اس کی قیادت ثمر آور ہوتی ہے۔ جمہوری حکومتوں کی ناکامیوں کے تناظر میں نیک نام آمروں کے تصور کو اٹھایا گیا ہے۔

Published: undefined

دنیا کے کئی اہم طاقتور لیڈران جیسا کہ روس کے ولادیمیر پوٹن اور ترکی کے رجب طیب ایردوآن ہیں، انہیں افریقہ کی لاکھوں عوام ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، صحافیوں کو خاموش کرانے کے رویوں اور اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے کے باوجود راک اسٹار کی طرح پسند کرتی ہیں۔

Published: undefined

ان فوجی بغاوتوں کے باوجود افریقی ممالک کو جمہوری حکومتوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس براعظم کو نیک نام و مہربان آمروں کی بھی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لوگ ایسی حکومت چاہتے ہیں کہ وہ صدر کا مزاق بھی اڑائیں تو انہیں جیل میں نہ ڈالا جائے۔

Published: undefined

افریقہ کو جمہوریت چاہیے

اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت عالمی سطح پر ایک مضبوط حکومتی نظام کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب افریقی اقوام میں ایک نسل کے بعد نئی نسل ابھر رہی ہے لیکن کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔

Published: undefined

علاقائی اقتصادی ادارے افریقی مفادات کو محفوظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ افریقی یونین بھی زیادہ وقعت حاصل نہیں کر پائی۔ ایسے ادارے آمریت پسندوں کی حمایت ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں۔ حقیقت میں افریقی ممالک کو کثیر سیاسی جماعتی جمہوری نظام درکار ہے اور افریقی سیاسی اشرافیہ کو سوچنا چاہیے کہ ان کے براعظم کو جمہوریت درکار ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined