اس دستاویزی فلم کا نام ’چھوٹے گَیرمانن‘ ہے اور اس کے ذریعے یہ پتہ چلانے کی کاوش کی گئی ہے کہ نئے نازی افراد والدین کے طور پر اپنے بچوں کو ذہنی طور پر انتہا پسندانہ نظریات کا حامل کیسے بناتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ نئے نازی والدین کی طرف سے ان کے بچوں کی اس طرح تربیت کا عمل جرمنی میں تقریباﹰ بیس ہزار بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
اس دستاویزی فلم کی جرمن سینما گھروں میں نمائش جمعرات نو مئی سے شروع ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس فلم کے فلم سازوں میں سے ایک فرانک گائگر کے ساتھ بات چیت کی:
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
’چھوٹے گَیرمانن‘ یا انگریزی میں ’لِٹل جرمنز‘ نامی اس دستاویزی فلم کا نام ان خوفناک حقائق کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا، جن سے اس فلم میں پردہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ دستاویزی فلم جرمنی کے معروف فلم ساز فرانک گائگر اور محمد فاروق منش نے مل کر بنائی ہے۔ اس میں جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جن شخصیات سے متعلق تفصیلات شامل کی گئی ہیں، ان میں معروف پبلشر، صحافی اور سیاسی کارکن گوئٹس کُوبِیچَیک اور انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این پی ڈی) کی سابقہ خاتون سیاستدان زِیگرِیڈ شُسلر بھی شامل ہیں۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
سوال، آپ کو اس فلم میں نئے نازیوں کے بچوں کی پرورش کے طریقے پر توجہ دینے کا خیال کیسے آیا؟
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
فرانک گائگر: ہمیں یہ خیال اس بات کا پتہ چلنے کے بعد آیا کہ ایک لڑکی تھی، جو ذیابیطس کی مریضہ تھی لیکن اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس مرض کے خلاف انسولین استعمال کرے۔ پھر جب متعلقہ شہر کے نوجوانوں سے متعلقہ امور کے سرکاری دفتر سے رابطہ کیا گیا، تو یہ خاندان جرمنی کے ایک وفاقی صوبے سے دوسرے میں منتقل ہو گیا، صرف اس بات سے بچنے کے لیے کہ ان کی بیٹی کا والدین کی مرضی کے برعکس علاج نہ کیا جائے۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی ایک برادری میں بڑی ہونے والی یہ لڑکی اپنے ارد گرد کے سماجی ماحول سے فرار چاہتی تھی اور اس کی کہانی وہ سب حقائق واضح کر دیتی ہے کہ نئے نازی گھرانوں میں بچوں کی پرورش کس طرح کے حالات میں کی جاتی ہے۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
اس فلم میں ان شخصیات کو ان کے بچپن کی خوابوں اور تعلیم سے متعلق مثالی تصورات کی وضاحت کے لیے کہا گیا اور فلم سازوں نے اس فلم میں اپنی طرف سے ان جرمن باشندوں کے جوابات پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی ان کے جوابات پر کوئی استدلال کیا ہے۔ لیکن انہی جوابات پر ان ماہرین کے تجزیاتی تبصرے بہرحال اس فلم کا حصہ ہیں، جو جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی پر تحقیق کے ماہر ہیں اور ایسے تبصرے کرتے ہوئے ان ماہرین کو سکرین پر نہیں دکھایا گیا۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس سوچ کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما ہے۔ تو پتہ یہ چلا کہ اس لڑکی کا خاندان انتہائی دائیں بازو کی سوچ پر پختہ یقین رکھنے والا ایک ایسا گھرانہ تھا، جو نسلوں سے اپنی اسی روایتی سوچ پر عمل پیرا تھا۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
یہ خاندان جدید طب اور اس کی سہولیات کو ’یہودیوں کا پیدا کردہ طریقہ علاج‘ قرار دے کر اسے مسترد کرتا تھا۔ یہ خاندان ’نیو جرمن میڈیسن‘ کہلانے والے اس طریقہ علاج پر یقین رکھتا تھا، جو رائک گیئرڈ ہامر نامی شخص نے تیار کیا تھا۔ (اس نقلی طریقہ علاج کے بانی کو کئی افراد کی موت کے بعد لمبی مدت کی سزائے قید سنا دی گئی تھی اور اس کا 2017ء میں انتقال ہو گیا تھا۔)
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
سوال، اس دستاویزی فلم میں ان انٹرویوز کے علاوہ یہ تفصیلات بھی دکھائی گئی ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کے نابالغ بچے ایک یوتھ کیمپ میں اپنا وقت کس طرح کی مصروفیات میں گزارتے ہیں۔ ایک کہانی ایک ایسی عورت کی بھی ہے، جس کا نام ’اَیلزا‘ ہے۔ وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اس لیے اس کی شخصیت کی تفصیلات اینیمیشن کی صورت میں دکھائی گئی ہیں۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
فرانک گائگر: یہ خاندان جدید طب اور اس کی سہولیات کو ’یہودیوں کا پیدا کردہ طریقہ علاج‘ قرار دے کر اسے مسترد کرتا تھا۔ یہ خاندان ’نیو جرمن میڈیسن‘ کہلانے والے اس طریقہ علاج پر یقین رکھتا تھا، جو رائک گیئرڈ ہامر نامی شخص نے تیار کیا تھا۔ (اس نقلی طریقہ علاج کے بانی کو کئی افراد کی موت کے بعد لمبی مدت کی سزائے قید سنا دی گئی تھی اور اس کا 2017ء میں انتقال ہو گیا تھا۔)
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
اس خاندان کے کئی بچے تھے، نئے نازیوں کی ذہنیت کے عین مطابق، سات بچے تو عام سی بات ہے۔ تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس گھرانے کے بچوں میں سے کتنوں کی پرورش والدین کے نظریات کے عین مطابق کی جا رہی تھی۔ ہمیں جو جواب ملا، وہ پریشان کن تھا۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
سوال، تو ایسے بچوں کی تعداد کتنی تھی؟
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
فرانک گائگر: ہم نے اس فلم میں یہ تعداد جان بوجھ کر نہیں بتائی۔ اس لیے کہ ہم چاہتے تھے کہ دیگر متاثرہ خاندان اور ان کے بچے بھی خود کو سامنے لائیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد 20 ہزار تک ہے، جو عرف عام میں اس ’قومی‘ تحریک کا حصہ ہیں۔ ہمیں یہ تعداد ’ایگزٹ، ڈوئچ لینڈ‘ نامی اس غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے پتہ چلی، جو ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے، جو جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے منظر نامے سے نکل کر معمول کی سماجی جمہوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور جس کے اپنی سوچ ترک کر دینے والے کئی سابقہ نئے نازیوں کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
جہاں تک ایلزا کا تعلق ہے تو یہ جرمن لڑکی، جو اب ایک نوجوان عورت ہے، بچپن سے ہی اپنے ذہن میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات بٹھائے جانے کے باوجود اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہی۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
سوال، آپ نے اس دستاویزی فلم میں بار بار اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں، کس لیے؟
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
فرانک گائگر: اس لیے کہ ہمارے لیے یہ وضاحت کرنا بہت ضروری تھا کہ نئے نازی اپنے اپنے گھرانوں میں ایک ’وطن‘ کے طور پر جرمنی کے اس تصور کو کس طرح زندہ رکھنا چاہتے ہیں، جو انہوں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا۔ اسی لیے وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے طور پر ایک ایسے بچپن کو موقع ہر حال میں دینا چاہتے ہیں، جو ان کے نزدیک ’محفوظ بچپن‘ ہوتا ہے۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
ایک اور بات جو اس فلم کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی، وہ یہ تھی کہ ’لٹل جرمنز‘ میں جتنے بھی کیسز کا مطالعہ کیا گیا، ان سب گھرانوں میں خاندان کا سربراہ والد ہی ہوتا ہے، جو ایک بہت مضبوط اور حکم دینے والی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور جس کی عمومی سوچ یہ بھی ہوتی ہے کہ جذبات کچھ نہیں ہوتے اور واحد قابل قبول جذبہ صرف ملک یا ’وطن‘ سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 May 2019, 4:52 AM IST