اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں کمی کے لیے طلاق نامے کی موجودہ قانونی دستاویز میں اصلاح کی جائے۔ مجوزہ اصلاح کا مقصد کسی بھی طلاق کو فوری طور پر عمل میں آنے سے روکنے کے لیے اسے ایک ایسی عاقلانہ شکل دینا ہے، جس کی بنیاد پر اس عمل کو بہتر بناتے ہوئے اس کے مختلف مراحل میں قانونی طور پر وقفے بھی دیے جاسکیں۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
اس امر کا اعلان ابھی حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کیا تھا۔ ان کے مطابق جلد ہی اس کونسل کا ایک ایسا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں مختلف ممالک کے علماء کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ بہتر بنائے گئے طلاق نامے کو ایک ایسے دستاویز کی شکل دی جا سکے، جو ہر کسی کے لیے قابل قبول ہو۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
عائلی مقدمات کا بہت بڑا حصہ طلاق اور خلع کے تنازعات
اس معاملے میں کونسل کی طرف سے پیش قدمی کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں طلاق اور خلع کے معاملات مسلسل بڑھتے ہوئے عائلی مقدمات کا بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے پاس طلاق سے متعلق اپنی کوئی قومی ڈیٹا بیس نہیں جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017ء میں صرف لاہور کی مختلف عدالتوں میں طلاق اور خلع سے متعلق فیملی مقدمات کی تعداد 20 ہزار سے زائد رہی تھی۔ اسی طرح اسلام آباد میں 2017ء میں اس نوعیت کے مقدمات کی تعداد بھی چار ہزار سے زائد تھی۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
پاکستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کے مطابق فوری طور پر 3 بار زبانی طلاق دے دینے کا عمل ایک امتیازی طریقہ کار ہے۔ اس عمل کے مردوں کے ہاتھوں استعمال سے نہ صرف ازدواجی رشتے میں ان پر عائد ہونے والے حقوق اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ خواتین کی زندگیوں پر بہت بڑا اختیار بھی مردوں کے ہاتھوں میں ہی رہتا ہے۔ معاشرتی طور پر تین طلاقیں بیک وقت دی جاتی ہیں اور یہ زبانی ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میں نہ کوئی سوال کیا جاتا ہے اور نہ ہی مرد بالعموم اپنے آپ کو معاشرتی طور پر اس طرح طلاق دینے کی وجوہات کی وضاحت کا پابند سمجھتے ہیں۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اس بات کا نوٹس لینے اور یہ تجویز دینے کہ طلاق کے اس عمل کو تبدیل کیا جائے، اس پر کئی حلقوں کی طرف سے اگر مثبت ردعمل سامنے آیا ہے تو کئی دیگر حلقے اس تجویز پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس متضاد ردعمل کی وجہ یہ ہے کہ شادی اور طلاق کے عمل کو محض مذہبی طور پر دیکھنے کے بجائے بہت سے سماجی طبقات اس امر کے حامی ہیں کہ اس حوالے سے معاشرتی اصلاحات براہ راست ایک سول قانونی معاملہ ہیں، جو حکومتی عمل داری میں آتا ہے۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
متاثرین بنیادی طور پر صرف عورتیں
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرکردہ کارکن زنیرہ احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا، ’’چونکہ طلاق متاثرین بنیادی طور پر عورتیں ہی ہوتی ہیں، جن کی ذہنی، جذباتی اور معاشرتی زندگی اکثر تباہ ہو جاتی ہے، اس لیے یہ بنیادی طور پر عورتوں کے حقوق کی بات ہے۔ ایسے کسی بھی اصلاحی عمل کا آغاز اور اختتام پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، جہاں ملکی خواتین کے حقوق کا تحفظ بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو صرف مردوں یا مذہبی حلقوں تک محدود بالکل نہ رکھا جائے۔‘‘
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
پارلیمان کا کردار
راولپنڈی کے ایک نجی اسکول میں گزشتہ 5 سال سے بطور ٹیچر کام کرنے والی ثنا اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے سابق شوہر نے ایک معمولی سے جھگڑے پر انہیں طلاق دے دی تھی اور گھر سے نکال دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’تب سے مجھے مردوں اور شادی کے نام سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر جہاں پر چوٹ لگتی ہو، اسے قابل گرفت اور قابل سزا ہونا چاہیے۔‘‘
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
ثنا اختر نے بتایا، ’’پاکستان کے پدرشاہی اور مذہبی لحاظ سے قدامت پسند معاشرے میں کسی بھی ازدواجی رشتے کے استحکام میں عورت کے کردار کو ویسے بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حقوق سے انکار کا یہ راستہ وراثت میں حصے اور بچوں کی تحویل تک جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام صرف کسی بھی نئے قانون کے آ جانے اور اس کے اسلامی ہونے تک محدود ہے۔ شادی اور طلاق کے قوانین اور ان سے متعلق نکاح ناموں میں کسی بھی ضروری اصلاح، ترمیم یا بہتری کی ذمہ داری صرف اور صرف منتخب قانون ساز اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔‘‘
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
قومی کمیشن برائے حقوق نسواں
ایک پرائیویٹ فرم میں بطور کوآرڈینیٹر کام کرنے والی خاتون حنا شیخ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شادی اور طلاق کے قوانین میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ مگر اس نئی تجویز پر عمل درآمد کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی سربراہی میں کیا جائے اور اس کمیشن کو وزارت برائے انسانی حقوق اور خواتین کا بھی مکمل تعاون حاصل ہو۔‘‘
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
حنا شیخ کے مطابق، ’’اصلاح کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے کہ کسی بھی شادی کو عورتوں کے خلاف اور صرف مردوں کی مرضی سے فوری، یکطرفہ اور بلا روک ٹوک ختم کیے جانے سے روکا جائے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں موجودہ عائلی قوانین مثال کے طور پر فیملی لاز آرڈینینس 1961 اور 2011ء کے ایکٹ میں ترامیم تجویز کرے۔‘‘
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
شادی ایک قانونی معاہدہ بھی
کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ بطور مذہب اسلام میں بھی شادی دو افراد کے درمیان ایک قانونی معاہدہ ہے، اس لیے عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نکاح نامے پر دستخطوں سے قبل اس میں درج شرائط اور ضوابط کو سمجھیں۔ یوں طلاق کے بارے میں بھی مختلف اختیارات نکاح نامے کا حصہ ہونا چاہییں۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
ان حلقوں کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر تین طلاقوں کے عمل کے خاتمے کے لیے ملکی پارلیمان نہ صرف ایک قانونی طریقہ کار پر متفق ہو بلکہ خواتین کے لیے ان کی اپنے حقوق سے آگہی کی خاطر ایک ملک گیر تشہیری مہم بھی شروع کی جائے تاکہ پاکستانی خواتین بھی خود اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Oct 2018, 7:01 AM IST
تصویر: پریس ریلیز