سماج

امریکی مسلمانوں کے مابین خلیج، حل کیا ہے؟

ہند مکی اپنے پچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکی اسلامک اسکول میں جب ان کی ساتھی طالبات سیاہ فاموں کے لیے نسلی تعصب کا اظہار کرتی تھیں وہ انہیں فوری طور پر روک دیتی تھیں۔ 

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

امریکا میں پولیس حراست میں افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد سے نسل پرستی کے خلاف عالمی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر عوامی آگاہی و شعور میں اضافہ کرنے کی خاطر مختلف قسم کے فورمز اور تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ کووڈ انیس کی وجہ سے زیادہ تر فورمز کا آن لائن انعقاد کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

ایسے ہی ایک آن لائن فورم میں شرکت کرنے والی عرب مسلم خاتون ہند مکی نے کہا کہ جس اسلامک اسکول میں وہ پڑھتی تھیں، وہاں بھی سیاہ فاموں کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں بالخصوص عربی زبان میں 'غلام‘ کے لیے استعمال ہونے والا متعصب لفظ بھی شامل تھا، ''جب میں انہیں روکتی تھیں، تو وہ کہتے تھے کہ یہ لفظ انہوں نے میرے لیے نہیں بولا بلکہ یہ تو امریکیوں کے لیے ہے‘‘۔ ہند مکی خود کو سیاہ فام افریقی مسلمان قرار دیتی ہیں۔

Published: undefined

امریکی مسلم کمیونٹی میں شعور بڑھتا ہوا

Published: undefined

جارج فوئلڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں بہت سے مسلمانوں نے بھی نسلی امتیاز کے خاتمے کی جدوجہد میں شرکت کرنا شروع کر دی ہے۔ مساجد، مذہبی اجتماعات اور دیگر تقریبات میں نسل پرستی کی مذمت کی جاتی ہے اور نسلی عدم مساوات کے خاتمے پر زور دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

تاہم مکی کا کہنا ہے کہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کی مختلف کمیونٹیوں میں بھی ایک نسلی تقسیم واضح ہے۔ نسل پرستی کے خلاف اور بین المذاہب مکالمت کے حق میں کام کرنے والی مکی کا کہنا ہے کہ ہر کوئی اس موضوع پر بات کر رہا ہے لیکن دراصل زبانی جمع خرچ کے بجائے غور کرنا چاہیے کہ عملی طور پر نسلی تعصب سے پاک معاشرہ کیسے وجود میں آ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے ایسے الفاظ اور جملوں کا استعمال ترک کرنا ہو گا، جو امتیازی اور نسلی تفریق کو ہوا دیتے ہیں۔

Published: undefined

امریکا میں مسلمانوں کی آبادی متنوع ہے، جن میں اب نسل پرستی کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ انسداد نسل پرستی کے لیے فعال MARC کی سربراہ مارگاری ہِل نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ عرصے کے دوران انہیں مسلم کمیونٹیوں کی طرف سے ایسی متعدد درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ وہ ان کے لیے کام کریں، ’’ہم لوگوں کو کہتے کہ وہ اپنی سیکھی ہوئی عادات و اطوار کے ساتھ ان الفاظ کو بھی بھلانے کی کوشش کریں، جو نسل پرستانہ رویوں کی عکاس ہو سکتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

یکساں مواقع ضروری

Published: undefined

لیکن سوال ہے کہ کیا اس طرح کے اقدامات کے عملی فوائد بھی ہوں گے؟ امریکن ۔ اسلامک ریلیشن کونسل سے وابستہ امام داؤد ولید کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹیوں میں یہ گفتگو کافی کھل کر ہو رہی ہے اور ماحول بھی دوستانہ ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ نیشنل اسلامک آرگنائزئشن میں سیاہ فام مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

شمالی امریکا کی اسلامک سوسائٹی کے دس بورڈ ممبرز میں سے ایک بھی افریقی نژاد نہیں ہے۔ اس مسلم ادارے کے ڈائریکٹر بشارت سلیم کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ اس ادارے کو نسلی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ابھی اس تناظر میں بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

امریکن لرننگ انسٹی ٹیوٹ فار مسلمز سے وابستہ اسکالر عبیداللہ ایوان نے اے پی کو بتایا کہ امریکا میں کچھ مسلمانوں میں نسل پرستی کا عنصر پایا جاتا ہے اور انہوں نے اس کا تجربہ خود بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف امریکا میں آباد ایسے مسلمانوں نے کمیونٹیاں بھی بنا رکھی ہیں، جو سیاہ فام نہیں ہیں اور وہ افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ مل کر کام بھی کرتے ہیں۔

Published: undefined

اسلام مساوات کا سبق دیتا ہے

Published: undefined

داؤد ولید کہتے ہیں کہ اسلام تو مساوات کا سبق دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے کوشش کی جا رہی ہے کہ فاصلوں کو کم کرتے ہوئے مکالمت کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ حال ہی میں کچھ لوگوں نے یہ حلف بھی اٹھایا تھا کہ وہ عربی زبان میں سیاہ فاموں کے لیے وہ متنازعہ لفظ استعمال نہیں کریں گے، جو عربی زبان میں ’غلام‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

عبیداللہ ایوان پرامید ہیں کہ امریکا میں بالخصوص نوجوان طبقے کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آ رہی ہے اور یہ کہ نوجوانوں کو زیادہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی کمیونٹیوں میں لوگوں کی مدد کریں تاکہ وہ فرسودہ روایات اور عادات کو بدل سکیں۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کچھ افریقی نژاد امریکی اتنی بری طرح سے مجروح ہوئے ہیں کہ ان کا اعتماد بحال کرنا آسان کام نہیں ہو گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined