بین الاقوامی سطح پر عالمی درجہ حرارت کو محدود کرنے کے لیے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کی کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے رواں برس جو اہم پیش رفت سامنے آئی ہے ان میں امریکا اور یورپ میں نئی قانون سازیوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی مذاکرات میں کیا جانے والا وہ معاہدہ بھی اہم ہے جس کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک کو ان سے نمٹنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔
Published: undefined
تاہم صعنتی دور کے بعد سے دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کی محفوظ حد تک رکھنے کا ہدف خطرے میں نظر آرہا ہے۔ اس کی وجہ فوسل فیول کا بڑھتا استعمال ہے جس سے خارج ہونے والی زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو عالمی حرارت میں اضافے کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اس برس نومبر کے مہینے میں مصر میں معنقد ہوئی آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں یو این کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش کا کہنا تھا کہ انسانیت کو اس وقت عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے خلاف جنگ میں اجتماعی کوششوں یا اجتماعی خودکشی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
Published: undefined
رواں برس اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین نے دنیا اور انسانوں کو درپیش خطرات کی سخت ترین وارننگ دیتے ہوئے موسمیاتی اثرات کی جو رپورٹ جاری کی اسے 'انسانی مصائب کی اٹلس‘ قرار دیا گیا تھا۔
Published: undefined
اس کے بعد سے یہ دیکھا گیا کہ محض 1.2 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے جو دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں سامنے آئیں وہ کس قدر خطرناک ہیں۔ ان میں ریکارڈ گرمی کی لہر کے باعث چین سے یورپ تک فصلوں کو نقصان کے علاوہ افریقہ کے کئی انتہائی غیر مستحکم مغربی ممالک میں خشک سالی سے لاکھوں افراد کے قحط کا شکار ہونا شامل ہے۔
Published: undefined
صرف یہ ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس برس پاکستان میں آنے والے شدید درجے کے سیلاب سے تقریبا 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور ملک کو 30 بلین ڈالر کے قریب نقصان پہنچا جبکہ معیشت پربھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔
Published: undefined
فرانس کے پیرری سیمون لاپلیس انسٹیٹیوٹ کے سربراہ اور سائنسدان رابرٹ واٹارڈ کے مطابق سال 2022 اب تک کے گرم ترین سالوں میں سے ایک ہو گا جس میں وہ سب کچھ ہوا جو درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سامنے آتا تاہم ان کے مطابق بدقسمتی سے یہ ابھی آغاز ہی ہے۔
Published: undefined
جہاں معیشتیں پہلے ہی تباہ کن موسمیاتی شدتوں کا سامنا کر رہی ہیں وہیں کئی ممالک کو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ کا بھی سامنا ہے۔ اسی پس منظر میں گزشتہ ماہ مصر میں اقوام متحدہ کے مذاکرات میں ان امیر ترین ممالک جو آلودگی پھیلانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اور موسم کی تباہ کاریوں کا موجب بن رہے ہیں، سے غریب ممالک میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ کے قیام پر اتفاق کیا جو ایک تاریخی اقدام ہے۔
Published: undefined
اس موقع پر پاکستان کی وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اس فیصلے کو 'مشترکہ مستقبل میں طویل سرمایہ کاری‘ قرار دیا۔ دوسری جانب موسمیاتی خطروں سے دوچار ممالک کا کہنا ہے کہ مصر میں ہونے والی اس کانفرنس میں نقصانات سے نمٹنے پر تو اتفاق کیا گیا لیکن اس کو روکنے اور ان کی وجہ بننے والے اخراج یعنی فوسل فیول کے استعمال میں کمی پر بات نہیں کی گئی۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹریش نے اس کانفرنس میں صرف یہ انتباہ ہی نہیں کیا کہ ہمارا سیارہ تباہی کے دہانے پر ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ انسانیت اور دنیا کو حیاتیاتی تنوع کی بربادی کا بھی سامنا ہے جس سے نمٹنا دنیا کے لیے اس وقت نہایت اہم ہے۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس اب سن 2023 میں فوسل فیول کے برآمد کنندہ متحدہ عرب امارت میں معنقد ہوگی جس میں مسلسل بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد تک محدود رکھنے کے لیے کوششوں پر پیرس میں سن 2015 میں ہونے والے معاہدے کا جائزہ لیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula