گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے سول سوسائٹی خاص طور پر خواتین کے خلاف سخت پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔
Published: undefined
مظاہرین کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولا جائے۔ افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں اور ہزاروں طالبات گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مخصوص نوکریوں کے علاوہ دیگر ملازمتوں میں خواتین کو مزید کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے خواتین کا تنہا سفر کرنا بھی ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ مرد کا ہونا ضروری ہے۔ خواتین صرف مخصوص دنوں میں ہی پارکوں اور عوامی تفریحی مقامات کا دورہ کر سکتی ہیں۔
Published: undefined
کابل میں خواتین کے اس حالیہ احتجاجی مظاہرے میں خواتین نے اپنے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا۔ یہ خواتین وزارت تعلیم کے دفتر کے باہر اکٹھی ہوئیں اور پُرزور انداز میں خواتین کے تعلیمی حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ مظاہرین نے کچھ سو میٹر تک مارچ کیا لیکن بعد میں طالبان اہلکاروں نے انہیں احتجاج کرنے سے روک دیا۔
Published: undefined
زولیا پارسی نامی ایک خاتون کا کہنا تھا، ''ہم ایک اعلامیہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن طالبان نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘‘ پارسی کے مطابق، ''انہوں نے کچھ لڑکیوں کے موبائل فون چھین لیے اور ہمیں اپنے احتجاج کی تصاویر یا ویڈیوز بنانے سے بھی روک دیا۔‘‘
Published: undefined
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے سخت اسلام پسند حکمرانی کے ایک نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا جو سن 1996 سے 2001 میں ان کے اقتدار سے مختلف ہونا تھا۔ لیکن طالبان اس وعدے کو پورا کرتے نظر نہیں آ رہے۔
Published: undefined
حال ہی میں ملک کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک حکم نامے میں کہا کہ خواتین کو عام طور پر گھر میں رہنا چاہیے۔ انہیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ اگر وہ کسی عوامی مقام پر جانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنے چہرے سمیت خود کو مکمل طور پر برقعے یا عبایہ سے ڈھانپنا ہو گا۔ طالبان کے اس حکم کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ ناقدین کی رائے میں یہ حکم خواتین کو طالبان کے ماضی کے دور اقتدار میں دھکیل رہا ہے۔
Published: undefined
طالبان نے خواتین کے احتجاج پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ عالمی سطح پر کئی ممالک کی جانب سے طالبان کو خواتین کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا کہا گیا ہے۔ لیکن طالبان قیادت کی جانب سے اقوام متحدہ اور ان ممالک کی درخواستوں پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
Published: undefined
افغانستان اس وقت شدید انسانی بحران کا بھی شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال ملک کے قریب گیارہ لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ غذائی قلت کے مرض کے شکار ہزاروں بچے اس سال علاج کے لیے ملک کے بڑے ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ صرف قندھار کے ایک ہسپتال میں تیس بچے شدید غذائی قلت کے باعث ہلاک ہو گئے۔ خشک سالی اور بین الاقوامی امداد کی کمی کے باعث ملک کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان کو خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ملک میں بھوک اور غربت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز