ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے محکمہ قانون کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جبری شادیوں اور غیرت کے نام پر جرائم کی روک تھام کے لیے کزن میرج پر پابندی عائد کی جائے۔ پولیس کی جانب سے لکھے گئے خط میں ناروے کے پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ناروے میں مقیم پاکستانیوں کے ہاں پیدا ہونے والے 41 فیصد بچوں کے والدین آپس میں کزنز ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
پولیس کی جانب سے اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آبائی ملکوں میں شادی کا بظاہر مقصد خاندان کے دیگر افراد کیلئے ناروے میں سکونت حاصل کرنا ہے۔ پولیس نے میرج ایکٹ اور امیگریشن ایکٹ میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ ایشیائی ممالک سے شادی کے ذریعے ناروے میں امیگریشن حاصل کرنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
Published: undefined
ناروے میں کزن میرج کی قانونی حیثیت پر بحث کئی برسوں سے جاری ہے۔ اوسلو یونیورسٹی ہسپتال کے چلڈرن سنٹر کی ایک تحقیق کے مطابق تارکین وطن میں کزن میرج ان کے بچوں میں جینیاتی طور پر پیدائشی نقائص کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دو سال قبل 2018ء میں ناروے کی لیبر پارٹی نے کزن میرج پر پابندی کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی کوشش کی تھی مگر مطلوبہ حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث یہ تحریک ناکام ہوگئی تھی۔ اس بار لیبر پارٹی نے پولیس کی مطالبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
ناروے میں حکمران لبرل پارٹی کے پاکستانی نژاد وزیر ثقافت عابد قیوم راجہ بھی اس پابندی کے حق میں ہیں۔ ناروے نیشنل ریڈیو پر اپنے ایک بیان میں عابد راجہ نے کہا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں کزن میرج پر پابندی کے حق میں ہیں تاہم اس پابندی کا اطلاق صرف تارکین وطن پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ خود ان کے والدین بھی ان کی شادی پاکستان میں موجود اپنے خاندان میں کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے دباؤ کے باوجود اس شادی سے انکار کردیا تھا۔
Published: undefined
ناروے امیگریشن فورم کے رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ اطہر علی نے اس مجوزہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریک حیات کا انتخاب کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ غیرت کے نام پر جرائم پر قابو پانے کے لیے کزن میرج پر پابندی لگانے کی بجائے دیگر اقدامات پر غور کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہے اور نصف سے زیادہ پاکستانی دارالحکومت اوسلو میں رہائش پذیر ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستانی خاندانوں میں کزن میرج کے رجحان میں کمی آئی ہے اور ناروے میں پیدا ہونے والی پاکستانیوں کی دوسری نسل، خاندان سے باہر شادی کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
Published: undefined
دنیا بھر میں 10 فیصد سے زیادہ شادیاں کزنز کے درمیان ہوتی ہیں۔ چین، تائیوان اور شمالی کوریا میں کزن میرج کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined