سماج

کورونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس شیلڈ کی مانگ میں اضافہ

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی عالمی وبا نے لوگوں کو اپنے رہن سہن تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک جرمن شہری نے معمر افراد کو مہلک بیماری کووڈ انیس سے محفوظ رکھنے کے لیے فیس شیلڈ ماسک تخلیق کیا ہے۔

کورونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس شیلڈ کی مانگ میں اضافہ
کورونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس شیلڈ کی مانگ میں اضافہ 

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے قبل جرمن شہری ڈرک تھیلن فائیو تھری ڈی پرنٹر سے بیٹ مین اور سپر مین جیسے کامک ہیروز کے ماڈل تیار کرتے تھے۔ لیکن کورونا کے بحران کے دوران چہرے کے ماسک کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے تھیلن ان مشینوں کے ذریعے چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک سو فیس شیلڈ تیار کر رہے ہیں۔
پینتیس سالہ ڈرک کا تعلق جرمنی میں کورونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے علاقے ہائنسبرگ سے ہے اور ان کی اہلیہ باربرا معمر افراد کی دیکھ بھال کے ایک کیئر سینٹر میں کام کرتی ہیں۔ ڈرک تھیلن ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہے لیکن نئی قسم کے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ان کا کام عارضی طور پر بند ہے۔

Published: undefined

دوسری جانب اس وبائی صورت حال کی وجہ سے کیئر سینٹر میں چہرے کے ماسک کی شدید کمی ہوچکی ہے۔ اس لیے ڈرک نے اپنے گھر میں تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے فیس شیلڈ ماسک تیار کرنے شروع کر دیے۔ اس کیئر سینٹر میں رہائش پذیر معمر افراد کی جانب سے فیس شیلڈ کا مثبت فیڈ بیک ملنے پر ڈرک بہت مطمئن ہے۔

Published: undefined

فیس شیلڈ کی مانگ میں اضافہ

چار ہفتے قبل ڈرک نے سات سو چہرے کے لیے حفاظتی ڈھال تیار کیے تھے۔ یہ مشینیں فیس شیلڈ کے مواد کو دو سو بیس ڈگری تک گرم کرتی ہیں اور پھر اس سے ماسک تیار کرتی ہیں۔ ایسے ایک ماسک کی تایری میں اوسطاً چالیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ معمر افراد کی رہائش گاہ میں فیس شیلڈز کی فراہمی سے قبل ڈرک اور ان کی اہلیہ باربرا نے خود اس ماسک کو استعمال کرکے جائزہ لیا۔ ڈرک کے مطابق ماسک لگایا اور میں نے اس پر صفائی کا اسپرے چھڑک دیا، ہر چیز دھندلا گئی۔ اس شیلڈ کے پار کچھ بھی نہیں ہوسکا۔

Published: undefined

ڈرک کے بنائے گئے فیس ماسک کا عام طور پر آپریشن تھیٹر میں استعمال کیے جانے والے ماسک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اس مقصد کے لیے بنائے بھی نہیں گئے۔ تاہم ڈرک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان ماسکس کو جراثیم سے پاک رکھا جائے اور وہ پرنٹر چلاتے ہوئے دستانے اور چہرے پر ماسک پہن لیتا ہے۔

Published: undefined

کارساز کمپنیوں اور نرسنگ ہوم کی دلچسپی

ڈرک نے کیئر سینٹر میں ماسک بھیجنے کے بارے میں فیس بک پر جب پوسٹ شائع کی تو وہ وائرل ہوگئی۔ ڈرک تھیلن کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو ایک ویب سائٹ پر تھری ڈی پرنٹرز سے ماسک بنانے والے کے طور پر رجسٹر بھی کیا۔ بعد ازاں آٹوموٹو انڈسٹری کی ایک کمپنی نے تھیلن سے رابطہ کیا اور ملازمین کی حفاظت کے لیے ڈرک کو فیس شیلڈ کا آرڈر دے دیا۔

Published: undefined

حال ہی میں ڈرک کو برلن کے ایک نرسنگ ہوم کا بھی آرڈر بھی ملا۔ ڈرک کے مطابق ایک خاتون نے خط لکھ کر امنی ضرورت بیان کی۔ وہ خاتون اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی تھی اور اس کے لیے اُسے ایک فیس شیلڈ یا ماسک کی ضرورت تھی تا کہ دوسرے لوگ ان سے محفوظ رہ سکیں۔

Published: undefined

غیر منافع بخش کاروبار

ڈرک کے لیے یہ ماسک یا فیس شیلڈ بنانا کوئی زیادہ مناع بخش نہیں ہے۔ وہ ایک ماسک سے محض صرف چند یورو منافع کماتا ہے، تاکہ اس سے مزید ضروری سامان کی خریداری کی جا سکے۔ ڈرک کی واحد فکر اگلا بجلی کا بل ہے۔ تھیلن کا کہنا ہے کہ پانچ تھری ڈی پرنٹرز بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس نے اپنے بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو رعایت یا سبسڈی یا کوئی خاص مراعت کی امید کی خواہش کرتے ہوئے خط لکھا ہے۔

Published: undefined

مزید افراد کا تعاون

ڈرک کے ساتھ اب مزید اور بھی لوگ تعاون کر رہے ہیں۔ جیسے کہ اسے ایک مقامی ڈرائیونگ اسکول نے ایک تھری ڈی پرنٹر فراہم کیا ہے۔ آئندہ ہفتوں میں، ڈرک تھیلن چوبیس گھنٹے ماسک تیار کر کے اپنے ملک میں وبا کے دور میں فیس ماسک کی کمی کو پورا کرنے کے سلسلے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined