اس مسودہ قانون کے تحت چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت اتنی بڑی اصلاحات کرنا چاہتی ہے، جتنی پہلے کبھی نہیں کی گئی تھیں۔ مثال کے طور پر اس قانون سازی کے بعد جرمنی میں کسی بھی غیر ملکی کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ ملک میں پانچ سال تک اپنے قانونی قیام کے بعد جرمن شہریت کی درخواست دے سکے گا۔ اب تک یہ مدت آٹھ سال ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ مجوزہ قانونی مسودہ منظور ہو جانے کے بعد جرمنی بنیادی طور پر اپنے ہاں دوہری شہریت کا حصول بھی ممکن بنا دے گا۔ اب تک چند استثنائی واقعات کو چھوڑ کر کسی بھی غیر ملکی کو جرمن شہریت لینے سے قبل اپنی پہلے سے حاصل شہریت چھوڑنا پڑتی ہے۔
Published: undefined
موجودہ مخلوط وفاقی حکومت نے یہ مسودہ قانون اس لیے پارلیمان میں پیش کیا کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی پر مشتمل اس حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے حکومتی اتحاد کے معاہدے میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ یہ جماعتیں اپنے مشترکہ دور اقتدار میں جرمن شہریت کے قانون میں جامع اصلاحات بھی لائیں گی۔
Published: undefined
بنڈس ٹاگ میں آج ہونے والی بحث کے دوران ملکی سطح پر اپوزیشن کی قدامت پسند یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو کے مشترکہ پارلیمانی حزب کے داخلہ سیاسی امور کے ترجمان آلیکسانڈر تھروم نے کہا کہ بنڈس ٹاگ کی اپوزیشن اس مسودہ قانون کو مسترد کرتی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ غیر ملکیوں کے لیے جرمن شہریت کے حصول کے لیے لازمی طور پر درکار قانونی قیام کی کم از کم مدت کم کر کے اور ہر کسی کے لیے دوہری شہریت کا راستہ کھول کر شولس حکومت جرمن ''ریاست کی خوشحالی اور بہتری کو خطرے میں ڈال‘‘ رہی ہے۔
Published: undefined
ساتھ ہی تھروم نے یہ بھی کہا کہ اس مسودہ قانون کا نام 'جرمن شہریت کے قانون میں اصلاحات کا بل‘ نہیں بلکہ 'جرمن شہریت کی بےقدری کا قانون‘ ہونا چاہیے۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے اس سیاست دان نے یہ بھی کہا کہ تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانی حالات میں دوہری شہریت کو عمومی طور پر ممکن بنا دینے والا یہ مجوزہ قانون ایک ''غلط اشارہ‘‘ ہو گا۔
Published: undefined
بنڈس ٹاگ میں اس مسودہ قانون پر بحث سے قبل ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والی وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے یہ بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی حالات، جدید دور کے تقاضوں اور جرمنی میں آبادی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ لازمی ہو چکا ہے کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں شہریت کے حصول کے قانون کو بھی جدید تر بنایا جائے۔
Published: undefined
نینسی فیزر نے کہا کہ وفاقی پارلیمان کو یہ مسودہ قانون اس لیے منظور کرنا چاہیے کہ طویل عرصے سے قانونی طور پر جرمنی میں مقیم ان کئی ملین غیر ملکی شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ اگر چاہیں تو جرمن شہریت بھی حاصل کر لیں، نہ کہ اس کے لیے انہیں پہلے اپنا آبائی ممالک کی شہریت ترک کرنا پڑے۔
Published: undefined
شولس حکومت کے پیش کردہ اس مسودہ قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ جو کوئی بھی سامیت دشمن، نسل پرستانہ یا کسی بھی شکل میں انسانی وقار کے منافی جرائم کا مرتکب ہو گا، اسے جرمن شہریت نہیں دی جائے گی۔
Published: undefined
اس کے علاوہ چند استثنائی حالات کو چھوڑ کر جرمن شہریت کے حصول کے خواہش مند کسی بھی تارک وطن کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ جرمن زبان پر کافی عبور رکھتا ہو اور جرمنی میں قیام کے دوران اپنے اخراجات زندگی خود برداشت کر رہا ہو، نہ کہ وہ اپنے یا اپنے خاندان کے لیے ریاستی مالی امداد پر انحصار کرتا ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined