ماہ بانو کی یہ پہلی زچگی تھی۔ درد کی شدت میں اسے آواران ڈسٹرکٹ ہسپتال لایا گیا۔ ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی اور ماہ بانو کی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈاکٹر نے انہیں کراچی لے جانے کا مشورہ دیا۔ آواران سے کراچی انتہائی دشوار گزار راستہ ہے۔ بعض مقامات پر تو روڈ بھی نہیں ہے۔ کراچی پہنچنے سے پہلے ماہ بانو اپنے پیٹ میں موجود بچے کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔
ماہ بانو کے شوہر امام بخش کے مطابق ماہ بانو نہ ہی اتنی کم عمر تھی اور نہ ہی انہوں نے پہلے کسی تکلیف کی شکایت کی، ''اگر میری بیوی کو ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایمرجنسی بنیادوں پر طبی امداد مہیا کی جاتی تو آج میری بیوی اور اس کا ہونے والا بچہ زندہ ہوتے۔‘‘
Published: undefined
نازول کے چوتھے بچے کی پیدائش گھر پر ہوئی، دوران زچگی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے نازول آج چھ سال گزرنے کے باوجود انفیکشن میں مبتلا ہے۔ نازول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''مجھے سمجھ نہیں آتا آخر میں ہی کیوں؟ ہمارے یہاں تو زمانے سے دائی کے ذریعے گھروں میں زچگی ہوتی ہے۔ جس دائی کے ہاتھوں میرا چوتھا بچہ پیدا ہوا، وہ خود میری والدہ کی دائی رہ چکی ہیں اور ہم سات بہن بھائی اسی کے ہاتھوں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
تفصیلات لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اسی دن علاقے میں تین گھروں میں بچے پیدا ہوئے تھے اور تینوں خواتین کی زچگی کے دوران جو گھریلو جراحی آلات استعمال کیے گئے وہ ایک ہی تھے۔ گزشتہ چھ برس سے نازول وقتاً فوقتاً کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں در بدر ہوتی رہی ہے اور ہر مرتبہ ٹیسٹ کے بعد نازول کا انفیکشن جوں کا توں موجود ہے۔
Published: undefined
نازول کے مطابق وہ اس زچگی کے دوران بچ تو گئی مگر آج اس کی زندگی مردوں سے بدتر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ درد کش ادویات اور اینٹی بائیوٹک لینے کے باوجود اس کی تکلیف میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اب تو ان کا چھوٹا بچہ بھی چھ سال کا ہو چکا ہے لیکن نازول بچوں کی پرورش اپنی بیماری کی وجہ سے مناسب طور پر نہیں کر پا رہی۔ نازول کے مطابق،''ہمارے گاﺅں میں آج تک دائیوں کا رواج ہے حفظان صحت کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ مکمل طور پر اس دائی کو بھی نہیں ہوتا جو کم پیسوں میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے انفیکشن ایک حاملہ عورت سے دوسری کو منتقل کر رہی ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
بلوچستان کے پسماندہ علاقے جہاں لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکر جیسی سہولت بھی موجود نہیں وہاں شاید ان دائیوں پر انحصار جاری رہے گا اور نازول جیسی کئی خواتین جو شاید زچگی کے دوران موت سے بچ تو جاتی ہیں مگر ان کی زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔ انفیکشن کا شکار اکثر خواتین کے شوہر دوسری شادیاں کر لیتے ہیں یا پھر یہ خواتین خود شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نازول کے بقول وہ بھی اسی خوف میں مبتلا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ حمل یا زچگی کے دوران ہر خاتون پیچیدگیوں سے گزرے لیکن یہ ضروری ہے کہ غیر تربیت یافتہ دائیوں اور عطائی ڈاکٹرز سے گریز کیا جائے اور پیچیدہ ڈلیوری سے بچنے کے لیے فوری طور پر حاملہ خاتون کو ہسپتال لے جایا جائے۔
Published: undefined
ماہرین کہتے ہیں کہ سبز چائے یا دار چینی دونوں ہی انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں لیکن اسے زچگی کی پیچیدگیوں سے منسلک کرنا قطعی طور پر درست نہیں۔ لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے شیدی خان کے مطابق ان کی بیوی کو دوران زچگی دورے پڑنے لگے،''میری والدہ اسے مسلسل قہوہ پلاتی رہیں اور مزید انتظار کرتی رہیں کچھ گھنٹوں کے بعد ایمرجنسی میں جب انہیں کراچی لایا گیا تو اس وقت تک اس کا انتقال ہوچکا تھا۔‘‘
Published: undefined
صوبہ بلوچستان تعلیم اور معاشی اعتبار سے دیگر صوبوں سے کافی پسماندہ ہے۔ دور دراز علاقوں میں ڈسٹرکٹ ہسپتال تو موجود ہیں لیکن بنیادی یا ایمرجنسی کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان میں دیگر مسائل کی طرح صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی اہم وجہ بلوچستان میں موجود سکیورٹی کی ابتر صورتحال کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان ہی کے بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں ایمرجنسی کی صورتحال بھی نہیں لیکن وہاں بھی پرائمری ہیلتھ اور زچہ و بچہ کے مراکز سہولیات سے محروم ہیں جس میں بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ بھی شامل ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر راحت جبین کا تعلق آواران سے ہے۔ ڈاکٹر راحت کے مطابق انتہائی غربت اور سہولیات کا فقدان خواتین کی اموات میں مسلسل اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔ ڈاکٹر راحت جبین نے ڈی ڈبلیو اردو کو مزید بتایا،''عموماً خواتین اس بارے میں علم ہی نہیں رکھتیں کہ لڑکی سے لیکر ایک ماں بننے کے عمل کے دوران انہیں کس قسم کی غذائیت درکار ہوتی ہے۔ بلوچستان میں اکثر ڈسٹرکٹ ہسپتال ایسے ہیں، جہاں خواتین پر مشتمل عملہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کہیں عملہ موجود ہے بھی تو تربیت کا فقدان ہے‘‘۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ جہاں غربت اور تعلیم کی کمی دیگر کئی مسائل کو جنم دیتی ہے وہاں صحت سے متعلق آگاہی نہ ہونا اور وسائل کی کمی بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
Published: undefined
صحت وہ اہم شعبہ ہے، جسے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ بی این پی مینگل سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ثناء بلوچ نے گوکہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر اس موضوع پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا کوئی ایسا ڈسٹرکٹ یا علاقہ نہیں جہاں آئے دن ماﺅں اور ان کے بطن سے پیدا ہونے والے نومولود کی فاتحہ نہ پڑھی جاتی ہو۔
Published: undefined
ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں سابق وزیر صحت رحمت بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں زچگی کے دوران اموات میں واضح کمی آئی ہے جبکہ 2013ء سے لیکر 2015ء کے دوران زچہ و بچہ کی اموات میں کافی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کوئٹہ میں پارلیمانی سیکرٹری صحت روبابہ بلیدی 2020ء میں ایک پروگرام میں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اموات کی شرح تشویش ناک اور دیگر صوبوں سے زیادہ ہے لیکن صوبے میں موجود دائیوں کو تربیت دیکر انہیں ”مڈوائف" کا درجہ دینے کے حکومتی وعدے کو آج تک یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined