سماج

بھارت کے دلت اور چین کے ایغور غلامی کی جدید شکلیں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے کا کہنا ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں غلامی نئی شکل میں موجود ہے۔ چین کے ایغور، بھارت کے دلت، خلیجی ممالک، برازیل اور کولمبیا کے گھریلو ملازمین اس میں شامل ہیں

بھارت کے دلت اور چین کے ایغور غلامی کی جدید شکلیں، اقوام متحدہ
بھارت کے دلت اور چین کے ایغور غلامی کی جدید شکلیں، اقوام متحدہ 

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق ٹومویا اوبوکاٹا نے عالمی ادارے کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں غلامی نئی شکل میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ ان میں چین اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک، خلیجی ممالک، برازیل اور کولمبیا کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

Published: undefined

چین میں ایغور مسلمانوں اور جنوبی ایشیا میں دلتوں کو دور جدید کی غلامی کا شکار بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں موریطانیہ، مالی، نائیجر اور افریقہ کے ساحل علاقے میں تو اقلیتوں کو روایتی طورپر غلام بناکر رکھنے کے واقعات کا بھی ذکر موجود ہے۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کے روز رکن ممالک کو دستیاب کرائی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچہ مزدوری، جو کہ دور جدید دنیا میں غلامی کی ہی ایک شکل ہے، دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور اس کی بدترین صورتیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

Published: undefined

اوبوکاٹ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ،"ایشیا اور بحرالکاہل، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ میں چار سے چھ فیصد بچوں کے مزدوری کرنے کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ افریقہ میں یہ 21.6 فیصد ہے جب کہ سب سہارا افریقہ میں یہ سب سے زیادہ 23.9 فیصد ہے۔

Published: undefined

چین کے ایغور مسلمان

امریکہ نے گزشتہ برس چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں تیار ہونے والی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگادی تھی۔ اوبوکاٹ نے اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے کیونکہ امریکہ نے پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اپنے ضابطے میں کہا ہے کہ اس علاقے سے صرف ایسے مصنوعات کی درآمد کی اجازت دی جائے گی جن کی تیاری میں بندھوا مزدوروں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔

Published: undefined

چین پر یہ الزام ہے کہ وہ مغربی خطے کے نسلی اور مذہبی ایغور اقلیتوں کا بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں استحصال کر رہا ہے۔ حالانکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

Published: undefined

انگلینڈ میں کیلے یونیورسٹی میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے پروفیسر اوبوکاٹا نے کہا کہ متاثرین اور حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے علاوہ کئی آزاد ذرائع سے دستیاب کرائی گئی اطلاعات کے غیر جانبدارانہ تجزیہ کی بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ "یہ کہنا منطقی ہوگا کہ ایغور، قزاخ اور دیگر نسلی اقلیتوں سے سنکیانگ میں زراعت اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں بالجبر مزدوری کرائی جارہی ہے۔"

Published: undefined

چین کا طریقہ کار

انہوں نے چین کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے دو طریقہ کار کا ذکر کیا۔ ایک تو جس میں اقلیتوں کو حراستی مراکز میں رکھ کر انہیں تربیت دی جاتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے اور دوسری غریبی کو ختم کرنے کی اسکیم میں جس کے تحت دیہی علاقوں میں دستیاب اضافی مزدروں کو دیگر علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

اوبوکاٹ کا کہنا ہے کہ تبت میں ایسی اسکیمیں اپنائی گئی ہیں جہاں کسانوں، چرواہوں اور دیگر دیہی مزدوروں کو دوسرے علاقوں میں کم آمدنی والے شعبوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری دعووں کے مطابق یہ اسکیمیں روزگار اور آمدن تو پیدا کرتی ہیں لیکن بہت سے معاملات میں یہ کام زبردستی کرایا جاتا ہے اور مزدوروں کو بہت زیادہ نگرانی، دھمکیوں اور جسمانی اور جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اوبوکاٹا نے کہا،"غلامی کے بعض واقعات تو ایسے ہیں جنہیں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔"

Published: undefined

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ووانگ وین بین نے اوباکاٹا کی رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے "امریکہ اور بعض دیگر مغربی ملکوں نیز چین مخالف طاقتوں کی جانب پھیلائی گئی جھوٹ اور غلط اطلاعات پر مبنی" قرار دیا۔

Published: undefined

عورتوں کو غلام بنانے کا چلن

اوبوکاٹ نے اپنی رپورٹ میں جبراً کرائی جانے والی شادیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیشتر جبراً شادیاں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور صومالیہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کے علاوہ بوکوحرام عیسائی خواتین اور لڑکیوں کو جبراً تبدیلی مذہب کرکے شادی کے لیے مجبور کرتی ہے۔

Published: undefined

انہوں نے بتایا کہ"میانمار میں سکیورٹی فورسز روہنگیا مسلم عورتوں کو منظم انداز میں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے بعض اقدامات تو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔"

Published: undefined

جنسی غلامی کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی بحران کا شکار علاقوں میں اس کا رجحان پریشان کن ہے۔ اوبوکاٹ نے عراق میں اقلیتی یزیدی فرقے کا ذکر کیا ہے جہاں 6500 خواتین کو داعش کے انتہا پسندوں نے اغوا کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں ریپ کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined