بھارتی میڈیا میں گزشتہ تقریبا ایک ہفتے سے ایک مسلم نوجوان کی ہندو لڑکی سے شادی اور پھر دارالحکومت دہلی میں اس لڑکی کا قتل نیز اس کے درجنوں ٹکڑے کرنے سے متعلق ابھی بحث جاری ہی تھی کہ خواتین کے ساتھ جرائم کے ایسے متعدد دیگر واقعات کی خبریں بھی ملک کے مختلف حصوں سے آنے لگیں۔
Published: undefined
تازہ واقعات میں ریاست اتر پردیش میں ایک شخص نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کے چھ ٹکڑے کر کے کنوئیں میں پھینک دیا جبکہ ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے دو ٹکڑے کر کے جنگل میں دو مختلف مقامات پر دفنا دیے۔
Published: undefined
چند روز قبل ہی متھرا کے پاس ایک 22 سالہ خاتون کی لاش قومی شاہراہ کے پاس سے سوٹ کیس میں رکھی ہوئی ملی تھی اور پولیس کے مطابق اس لڑکی کا تعلق بھی دہلی سے ہے۔ پولیس کے مطابق ان کیسز میں بعض ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
Published: undefined
ریاست اتر پردیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ضلع اعظم گڑھ میں پرنس یادو نامی ایک شخص کو 20 سالہ ایک لڑکی کے قتل کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یادو پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ لڑکی کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے ان کے ساتھ شادی سے انکار کر کے کسی دوسرے سے شادی کر لی تھی۔
Published: undefined
قتل کے بعد لڑکی کی لاش کے متعدد ٹکڑے کر کے ایک کنویں میں پھینک دیے گئے جنہیں، بر آمد کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی کا نام آرادھنا ہے، جس کا تعلق ضلع اعظم گڑھ کے عشق پور سے تھا۔ ایک اور تازہ واقعہ مدھیہ پردیش کے شہڈول کا ہے، جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کا قتل کرنے کے بعد اس کے بھی کئی ٹکڑے کر دیے اور پھر انہیں جنگل میں مختلف جگہوں پر دفن کر دیا۔
Published: undefined
اس کیس میں مقتول کی شناخت سرسوتی پٹیل کے طور پر کی گئی ہے جبکہ پولیس کے مطابق ملزم ان کے شوہر رام کشور پٹیل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے مبینہ طور پر بے وفائی کے شک و شبہے میں بیوی کو کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا۔
Published: undefined
آج ہی پولیس نے بتایا ہے کہ یمنا ایکسپریس وے سے جس لڑکی کی لاش ایک سوٹ کیس میں سے برآمد کی گئی تھی، اس کے چہرے اور سر پر خون کے نشان کے ساتھ ہی اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا: ''ہمیں اس بارے میں اہم سراغ ملے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لڑکی کا نام آروشی یادو اور والد کا نام نتیش یادو ہے۔ یہ خاندان دہلی کے بدر پور میں رہتا ہے۔''
Published: undefined
بھارتی میڈیا میں گزشتہ ایک ہفتے سے جس قتل پر سب سے زیادہ بحث ہوئی، وہ نوجوان خاتون شردھا واکر کا ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف ایک مسلم نوجوان آفتاب پونے والا سے شادی کی تھی۔
Published: undefined
پولیس کا دعوی کہ آفتاب اور شردھا میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی جس، سے تنگ آ کر ملزم نے پہلے گلا گھونٹ کر ان کا قتل کر دیا اور پھر لاش کے 35 ٹکڑے کر کے اپنی فرج میں انہیں رکھا۔ پھر ملزم نے ہر روز تھوڑے تھوڑے ان ٹکڑوں کو دہلی کے مضافات کے جنگل میں مختلف جگہوں پر پھینک دیا۔
Published: undefined
بیشتر بھارتی میڈیا میں تقریباً ہر موضوع پر ہی آج کل بحث ہندو اور مسلمان کے زاویے سے کی جاتی ہے اور اس واقعے کو بھی ہندو اور مسلمان کا زاویہ دینے کی پوری کوشش کی گئی۔ انسانی حقوق کے کارکنان کہتے ہیں کہ چونکہ موجودہ بھارتی حکومت ''ہر چیز کو ہندو مسلم کے چشمے سے دیکھتی ہے'' اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔
Published: undefined
سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں: اسے نفرت پھیلانے کے مقصد سے ایک اوزار کے طور استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اگر دونوں ہندو ہوں، تو ایسے جرائم کو تو رپورٹ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ دلت لڑکا اگر اونچی ذات والی لڑکی سے شادی کر لے پھر اگر لڑکا مسلم ہو تو، بس اس پر ہنگامہ ہوتا ہے۔ تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں: ''یہ اسی سیاست کا حصہ ہے جس نے اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔ جو طاقتیں ایسا کرتی ہیں، انہیں حکومت کا پورا تعاون حاصل ہے۔''
Published: undefined
شبنم ہاشمی کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد تو پہلے بھی تھا، تاہم اس حکومت میں اس کو بڑھاوا ملا ہے۔ ''لنچنگ جیسے واقعات سے تشدد کا کلچر بڑھتا جا رہا ہے اور یہ معمول کی بات ہوتی جا رہی ہے۔ تشدد کے ماحول میں عورت پہلا ہدف ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملزموں کو سزا نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے، جیسے انہیں استثنی حاصل ہو۔''
Published: undefined
شبنم ہاشمی کے مطابق حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور اس حوالے سے جو قوانین ہیں انہیں مزید کمزور کیا جا رہا ہے۔ ''پہلے گھریلو تشدد کے معاملے میں ایف آئی آر فوری طور پر درج کی جاتی تھی، اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ پہلے تفتیش ہو گی پھر کیس درج ہو گا اور انکوائری کا مطلب لڑکے والوں سے پیسہ کھا کر کیس کو بند کرنا ہے۔''
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز