سماج

کووڈ اور سائنس، سچ کیا اور جھوٹ کیا؟

کووڈ کی عالمی وبا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات گردش میں ہیں، جن میں سے بہت سی غلط بھی ہیں۔ کس بات پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں، یہ معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔

کووڈ اور سائنس، سچ کیا اور جھوٹ کیا؟
کووڈ اور سائنس، سچ کیا اور جھوٹ کیا؟ 

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران کورونا وائرس کے کسی ایک ہی پہلو کے بارے میں دی جانے والی معلومات میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی رہی ہے، کیا یہ بات آپ کے لیے بھی الجھن یا کوفت کا باعث بن رہی ہے؟

Published: undefined

کیا آپ اس بات پر بھی برہم ہیں کہ متبادل رائے رکھنے والے ماہرین کو اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی خاطر مناسب توجہ نہیں مل رہی یا انہیں موقع ہی نہیں دیا جا رہا کہ وہ اپنی بات ہم تک پہنچائیں؟ وہ جو بھی کہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر ڈاکٹر یا طبی ماہرین ہی تو ہیں۔

Published: undefined

بہت سے سوالات ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ مثال کے طور پر اس عالمی وبا پر کون با اعتماد ماہر ہے؟ اور کون نہیں؟ سائنس دان کورونا وائرس کے بارے میں اس بات پر قائم کیوں نہیں رہتے، جو انہوں نے کچھ دن پہلے بہت وثوق سے کہی تھی؟ دوسرے لفظوں میں سائنس کیسے کام کرتی ہے؟

Published: undefined

سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ بالخصوص اس طرح کے وبائی امراض کے دوران سائنس ہمیشہ ہی درست علم فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ اس کا دعویٰ بھی نہیں کرتی۔ حالات و واقعات اور شواہد بدلنے کے ساتھ سائنس بھی اپنے اندر تبدیلی لاتی ہے۔

Published: undefined

سائنس ایک ارتقائی عمل ہے، جو ہمیشہ سوال کرتی رہتی ہے۔ یہ عمل اسے خود کو درست کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہ کہنا ہے الرش ڈرناگل کا، جو برلن کے چیرٹی ہسپتال سے بطور محقق وابستہ ہیں۔ ان کا کام پہلے سے کی گئی ریسرچ کی جانچ پڑتال کرنا اور اس پر نئی ریسرچ کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی رہ گئی ہے تو اس درست کیا جائے۔

Published: undefined

حمل گرنے کے واقعات میں اضافہ

اگرچہ سائنسی طریقہ کار مزید ریسرچ اور اس میں ترامیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ تمام مفروضہ جات اور نتائج کا وزن ایک جیسا ہو۔

Published: undefined

کووڈ ویکسین کے بارے میں بھی بہت سی غلط معلومات گردش کر رہی ہیں۔ جیسا کہ ایک مڈ وائف (دائی) نے مجھے بتایا کہ ایسی خواتین کے حمل گرنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جنہوں نے ویکسین لگوائی ہے۔

Published: undefined

جب کوئی مڈ وائف ایسا بیان دے تو بندہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس میں کچھ حقیقت تو ہو گی کیونکہ یہ ہیلتھ ورکر ہے اور اسے ان باتوں کے بارے میں علم تو گا ہی۔ اس طرح کا مشاہدہ کسی مڈوائف کی طرف سے آئے یا کسی عام شخص کی طرف سے۔ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مفروضے کے بارے میں حقائق سامنے لائے جائیں۔

Published: undefined

الرش کہتے ہیں کہ اس طرح کے مفروضوں کو کنٹرولڈ اسٹڈیز سے ٹیسٹ کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر آیا ان دو واقعات (ویکسین لگوانا اور خواتین کا حمل گرنا) کے مابین واقعی کوئی سائنسی تعلق ہے۔ جب ریسرچ مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ درست نہیں۔ دنیا بھر میں آٹھ اعشاریہ سات ملین افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور اس طرح کے مفروضات کی جانچ اب کوئی خاص مشکل نہیں رہی۔

Published: undefined

شک اور خود تنقیدی

ہر انسان مخصوص حالات و واقعات کی پیداوار ہوتا ہے، یہی حالات زندگی و تجربات اسے کچھ باتوں کو اٹل اور حقیقی تصور کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یوں وہ ہر واقعے کی تشریح اپنے سیکھے ہوئے نظام یقین یا بلیف سسٹم کے تحت کرنے لگتا ہیں۔

Published: undefined

ممکن ہے کہ اس مڈ وائف کی اس مخصوص رائے میں اس کا انسانی میکانزم کارفرما ہو۔ انسانی میکانزم (جسم، دماغ، جذبات اور توانائی کا وہ مجموعہ جو انسان کی تکمیل کرتا ہے) میں اگر کوئی وقوفی یا ادراکی (سمجھ بوجھ یا اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر کچھ یقین کر لینا) غلطی سرزد ہو جائے تو وہ انہی معلومات یا علم کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، جو اس کے یقینی نظام کے ساتھ میل کھاتی ہیں۔

Published: undefined

سوچنے اور سمجھنے کا ایک خاص انداز اور معلومات کو تسلیم یا رد کرنے میں ہر انسان اپنے مخصوص علمی تعصب سے کام لیتا ہے۔ ماہر نفسیات اس کے لیے کنفرمیشن بائس (تصدیق کے تعصب) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

Published: undefined

سازشی سوچ پر ریسرچ کرنے والے سوشل سائیکالوجسٹ رونالڈ امہوف کہتے ہیں کہ تصدیق کے تعصب یا خاص طریقے سے سوچنے کے عمل سے کوئی بھی انسان آزاد نہیں لیکن اہم ہے کہ لوگ اپنے خیالات کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ ان کی اس خاص ںظریے میں منطقی وزن کتنا ہے، یعنی کیا وہ دلائل سے ثابت ہو سکتا ہے؟

Published: undefined

ثابت ںہیں بلکہ غلط ثابت کرنا

الرش ڈرناگل کا کہنا ہے سائنس سچائی بیان نہیں کرتی بلکہ صرف یہ بتاتی ہے کہ کوئی مفروضہ درست ہے یا غلط۔ یہ مفروضہ کہ سب کوے کالے ہیں، اس وقت تک درست ہے، جب تک کسی اور رنگ کا کوا نظر نہ آ جائے۔

Published: undefined

یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نئی سائنسی تبدیلی آتی ہے تو سائنس دان اپنی پہلے کہی ہوئی بات کو غلط تسلیم کر لیتے ہیں۔ کووڈ کی عالمی وبا کے بالخصوص پہلے سال معلومات تیزی سے موصول ہو رہی تھیں اور مفروضے بنائے جا رہے تھے۔ سائنسی شواہد کی بنیاد پر ان کی جانچ کے بعد کچھ درست ثابت ہوئے اور کچھ غلط۔

Published: undefined

پھر جیسے جیسے نئی معلومات ملیں اور ان کا تجزیہ کیا گیا تو سائنس نے درست نتائج کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ مفروضات کو غلط قرار دے دیا۔ اب بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس عالمی وبا سے متعلق نئی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ مزید تحقیق کے بعد ہم ان معلومات کو بھی غلط قرار دے دیں، جو فی الحال درست تسلیم کی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

امہوف کے مطابق اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ کوئی شے 100 فیصد درست ہے تو جان لیجیے کہ وہ مشکوک سائنسی رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined