سماج

پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘ کئی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ’ان بریڈنگ‘ کئی جینیاتی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘
پاکستان میں ’کزن میرج کا خطرناک رجحان‘ 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی غفور حسین شاہ آٹھ بچوں کے والد ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں۔ پاکستان میں خاندانی رسم و رواج کے مطابق شاہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وسیع خاندان کے اندر ہی اپنے بچوں کی شادیاں کرائیں۔ 56 سالہ شاہ قریبی خاندان میں شادیوں سے بچوں میں ممکنہ طور پر نمودار ہونے والی جینیاتی بیماریوں کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے سن 1987 میں اپنی کزن سے شادی کی تھی اور ان کے تین بچے مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں۔

Published: undefined

شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کا دماغ معمول کے مطابق نہیں بڑھ سکا۔ ان کی ایک بیٹی کو بولنے میں اور ایک اور بیٹی کو سننے میں مشکل پیش آتی ہے۔ شاہ کے بقول انہیں افسوس ہے کہ ان کے یہ تینوں بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکے، ''میں ہمیشہ ان کے بارے میں پریشان رہتا ہوں۔ میری بیوی اور میرے گزر جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘

Published: undefined

غفور حسین شاہ کا کہنا ہے کہ جینیاتی امراض کے خطرات کے باوجود کزنز کے ساتھ شادی کے لیے بہت زیادہ سماجی دباؤ ہوتا ہے۔ جو بھی اپنے بچوں کی خاندان میں شادی سے انکار کرتا ہے، اسے بے دخل کر دیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ شاہ کو بھی اپنے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادی قریبی رشتہ داروں میں کرنا پڑی۔ شاہ کے خاندان میں خون کی خرابی، سیکھنے کی معذوری، اندھے پن اور بہرے پن کی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خاندان میں شادیاں اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

پاکستان میں جینیاتی تغیرات پر سن 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملکی آبادی کی 'متضاد ساخت'، جس میں خون کے رشتے بھی شامل ہیں، جینیاتی عوارض کے پھیلاؤ کا باعث ہے۔ رپورٹ میں ایک 'جینیاتی تبدیلی کا ڈیٹا بیس‘ متعارف کرایا گیا ہے، جو مختلف قسم کے تغیرات اور ان کی وجہ سے ہونے والی خرابیوں کی شناخت اور انہیں ٹریک کرتا ہے۔ ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے 130 مختلف قسم کے جینیاتی عوارض میں 1000 سے زائد تغیرات رپورٹ ہوئے ہیں۔

Published: undefined

جینیاتی امراض کی ماہر امراض اطفال ہما ارشد چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں 'ان بریڈنگ‘ کی وجہ سے 'جینیٹک ڈس آڈرز‘ کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص عوارض کو مخصوص ذاتوں اور قبائل سے جوڑا جا سکتا ہے، جہاں خاندان کے اندر شادیاں عام ہیں۔

Published: undefined

پاکستان میں اس وقت نظر آنے والے سب سے عام جینیاتی امراض میں سے ایک خون کی خرابی تھیلیسیمیا ہے، جس میں خون کے سرخ خلیات آکسیجن جذب نہیں کر پاتے۔

Published: undefined

کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر صحت سراج الدولہ کے مطابق پاکستان میں کزن میرج کے رواج کو اسلامی مذہبی عقائد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے علما سے کہا کہ وہ جینیاتی بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں مدد کریں اور ان سے کہا کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ کس طرح خاندانی شادیاں جینیاتی بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔‘‘ سراج الدولہ کے مطابق جن علما کے ساتھ انہوں نے بات کی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ایسی شادیاں اسلامی شریعت کے مطابق ہیں۔

Published: undefined

مارچ 2020 میں حکومت پنجاب نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی، جس کا مقصد جینیاتی بیماریوں کی روک تھام ہے۔ لاہور میں بچوں کا ہسپتال اب بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے مفت جینیاتی اسکریننگ کی خدمات پیش کر رہا ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹروں کے مطابق قریبی خاندان کے افراد کے ساتھ بچے پیدا کرنے کے خطرے پر پاکستان میں لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined