سوال یہ ہے کہ پاکستان میں رمضان اور عیدین کے موقع پر چاند کی رویت سے جڑے اختلافات کی وجہ کیا ہے؟ وسعت اللہ خان کے اس کالم میں کئی دہائیوں سے جاری اس جھگڑے کی بنیاد تک پہنچتے ہیں۔
Published: undefined
کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الدین کی اٹھائیسویں روزے ( بروز بدھ ) پر سوشل میڈیا پرعام ہونے والی وڈیو کا قصہ تو آپ تک پہنچ ہی گیا ہوگا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یکم شوال کا چاند نظر نہیں آیا لہذا عید سنیچر کو ہو گی۔
Published: undefined
اس وڈیو پر جب ہنگامہ ہوا تو مفتی صاحب نے وضاحت فرمائی کہ ہمیشہ ٹی وی کے لیے دو وڈیوز پیشگی ریکارڈ کی جاتی ہیں تاکہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کی صورت میں کوئی ایک ویڈیو بروقت نشر ہو سکے لیکن اس بار کسی شرپسند نے ایک وڈیو لیک کر دی۔
Published: undefined
مگر وڈیو لیک نہ بھی ہوتی تب بھی کون سا ایک عید ہوتی۔ خود پاکستان میں بھی وہ سال بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جب صرف ایک دن ہی پہلا روزہ یا عید ہو۔ دو عیدیں ہونا معمول کا چلن ہو چلا ہے اور جب تین عیدیں ہوتی ہیں تب کچھ لوگوں کو قدرے حیرت ہوتی ہے ۔
Published: undefined
کچھ سادہ لوح پوچھتے ہیں آخر سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں اور ایران میں کیوں دو عیدیں نہیں ہوتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کا نظام و انصرام اور ریاستی گرفت ایسی تیز دھار ہے کہ کسی کو انفرادی طور پر سرکاری چاند کے مقابل متوازی چاند نکالنے کی جرات کم ہی ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں کسی بھی چاند کو چار چاند لگا دینا ہمارے جمہوری مزاج کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں چاند نکلتا کم ہے چڑھایا زیادہ جاتا ہے ۔
Published: undefined
ایک اور سوال پوچھا جاتا ہے کہ اکثر رمضان اور عیدین کے چاند پر ہی کیوں اختلاف ہوتا ہے ؟ محرم سمیت باقی نو قمری مہینوں میں سب فرقوں کا عموماً ایک چاند پر کیسے گذارہ ہو جاتا ہے ؟
Published: undefined
مجھ کم عقل کو تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ ان تین مذکورہ چاندوں کا تعلق براہ راست کھانے پینے سے ہے اور چونکہ ان تین چاندوں کے نظر آنے نہ آنے کے منتظر کروڑوں لوگ ہوتے ہیں اور تمام کیمروں کا رخ سرکردہ علما کے مبارک چہروں کی جانب ہوتا ہے اور خبروں میں رہنے کا شوق کسے نہیں ہوتا ؟ تو یہ سب اسباب مل ملا کے فیصلہ سازوں کی چاندی کر دیتے ہیں اور اکثر فیصلے ایسے ہوتے ہیں کہ ان علما کے معتقدین اور مقلدین بھی چندیا کھجاتے رہ جاتے ہیں۔
Published: undefined
خود رویت ہلال کمیٹی کے معزز ارکان بھی بلند و بالا چھت پر ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کے بجائے محکمہ موسمیات کی دور بینوں کا سہارا لے کے ہی چاند ٹٹولتے ہیں۔ اگر صاحبانِ اجتہاد کو بھی چاند دیکھنے کے لیے دوربین کی محتاجی ہے تو پھر یہ معاملہ فلکیاتی ماہرین اور چاند سورج کے گردشی کیلنڈر پر چھوڑنا کہیں بہتر ہو گا تاکہ ہر سال کی چھیچھا لیدر سے بچا جا سکے۔مگر پھر زندگی میں مزہ ہی کیا رہا اگر ہر مسئلے کا آسان اور سیدھا سیدھا حل نکل آئے۔
Published: undefined
انیس سو چوہتر میں ہر سال کی چاند ماری سے بچنے کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کے تحت مرکزی اور صوبائی رویتِ ہلال کمیٹیوں کا ایک منظم ڈھانچا قائم کیا گیا۔ ان کمیٹیوں میں تمام قابلِ ذکر مکاتبِ فکر کے علما شامل کرنے کی کوشش ہوئی۔
Published: undefined
اس قمری ڈھانچے کے قیام کا مقصد ایوبی دور کی دھماچوکڑی سے بچنا تھا۔جب مولانا احتشام الحق تھانوی کی سربراہی میں ایک نیم سرکاری کمیٹی چاند دیکھا کرتی تھی۔ مگر اس کمیٹی اور ایوبی حکومت اور کمیٹی کے مخالف علما کی آپس میں کم ہی بنتی تھی۔اس دور میں کراچی آمریت کے خلاف مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اہلیانِ کراچی کی یہ اجتماعی نفسیات ہو گئی تھی کہ بقولِ جون ایلیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار:ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بخدا نہیں کیا
Published: undefined
چنانچہ آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ انیس سو اٹھاون ، اکسٹھ ، باسٹھ اور اڑسٹھ میں کراچی ، بقیہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں الگ الگ تین تین چاند بھی نکلے ۔ انیس سو اڑسٹھ میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی کسی نے انہیں پٹی پڑھا دی کہ جمعہ کی عید حکمران کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ ایک دن میں دو خطبے بھاری پڑ سکتے ہیں۔ چنانچہ سرکار کی جانب سے بدھ کی شام اعلان کر دیا گا کہ جمعرات کو عید ہے۔ لیکن علما نے رات گئے اعلان کیا کہ چاند نہیں نکلا لہذا عید جمعہ کو ہو گی۔
Published: undefined
سرکار نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ کراچی کے پولو گراؤنڈ میں جمعہ کے بجائے جمعرات کو نمازِ عید کا اہتمام کیا اور ایک مفتی صاحب کو امامت کے لیے لایا گیا۔جب نمازی سجدے میں گئے تو مفتی صاحب چمپت ہو گئے۔جب سجدہ غیر معمولی طویل ہو گیا تو کسی نے سر اٹھا کے حالات کا جائزہ لیا تب پتہ چلا کہ جائے امام خالی است۔
Published: undefined
لیکن انیس سو چوہتر میں رویتِ ہلال کا مرکزی نظام قائم ہونے کے باوجود بھی حالات میں کوئی خاص سدھار نہیں آیا۔کمیٹی کے چیرمین کی مدت تین برس مقرر کی گئی مگر مفتی منیب الرحمان انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار بیس تک کمیٹی کی سربراہی پر ڈٹے رہے۔گزشتہ دورِ حکومت میں مفتی صاحب کی جبری سبک دوشی کے بعد بادشاہی مسجد کے امام مولانا عبدالکبیر آزاد کمیٹی کے سربراہ نامزد ہوئے۔
Published: undefined
رویت ہلال کمیٹی میں پندرہ علما کے علاوہ ایک ایک رکن وزارتِ مذہبی امور ، سپارکو ، محکمہ موسمیات ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی نمائندگی کرتا ہے۔ چار زونل کمیٹیاں بھی ہیں جو مرکزی کمیٹی سے رابطے میں رہتی ہیں۔
Published: undefined
مگر یہ سارا تام جھام ایک طرف اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کی پونے دو سو برس پرانی مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی دوسری طرف۔کئی برس سے ہزارہ ڈویژن کو چھوڑ کے باقی خیبر پختونخواہ مفتی پوپلزئی کے چاند پر بھروسا کر رہا ہے۔ دو ہزار سترہ میں پوپلزئی صاحب کو کسی نہ کسی طرح رمضان میں عمرے پر جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تاکہ وہ دوسرا چاند نہ نکالیں۔
Published: undefined
ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کتاب ، ایک ملک ، ایک قوم ، ایک زبان اپنی جگہ مگر ایک چاند ؟؟
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ، کسی انوکھی بات رے۔
(شکر ہے اس بار پاکستان میں صرف ایک چاند کی عید منائی گئی ہے۔ مگر کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ بقر عید یا اگلے برس بھی یہی ہوگا۔)
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined