متنازعہ ڈیٹا پرائیویسی بل میں کئی انتہائی سخت ضابطے شامل کیے گئے تھے، جس کے تحت نجی کمپنیوں کو اپنے صارفین اور یوزرس کے بارے میں تفصیلی معلومات بھارت سرکار کو دینی پڑتی۔ اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نکیل کسنے کے اقدامات کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ فیس بک اور گوگل جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس بل کی مسلسل مخالفت کررہی تھیں۔
Published: undefined
مرکزی حکومت کی طرف سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی پینل نے مذکورہ بل کا جائزہ لیا جس کے بعد اسے واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ نوٹس کے مطابق پینل نے بل میں کئی ترامیم کی سفارش کی ہے، جس کے بعد ایک نئے اور جامع قانون کی ضرورت کے مدنظر اسے واپس لے لیا گیا اور اب حکومت ایک نیا بل پیش کرے گی۔
Published: undefined
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھارتی وزیر اشونی ویشنو نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ حکومت نے نئے بل کے مسودے پر کام شروع کردیا ہے۔" یہ بڑی حد تک تیار بھی ہوچکا ہے اور اسے جلد ہی عام کر دیا جائے گا۔"
Published: undefined
ویشنو کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ سن 2023 کے پارلیمان کے بجٹ اجلاس سے قبل ہی یہ بل تیار ہوجائے تاکہ اس اجلاس کے دوران اسے منظور کرانے کے بعد قانون کو نافذ کیا جائے۔ بجٹ اجلاس بالعموم فروری کی آخری تاریخ کو شروع ہو کر اپریل کے پہلے ہفتے تک چلتا ہے۔
Published: undefined
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ پرائیویسی بل کا مقصد بھارتی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس بل کا ایک مقصد ایک ایسے ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام بھی ہے جو ڈیٹا کی حفاظت کرے۔ تاہم بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس بل کے دفعات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی تھی۔ ان کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ڈیٹا اسٹوریج کے سلسلے میں ان پر کافی بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
Published: undefined
بھارت کی ٹیکنالوجی پالیسی پر قریبی نگاہ رکھنے والے دہلی کے ایک مشیر پرشانتو رائے کہتے ہیں کہ "یہ اچھی بات ہے کہ حکومت اب ازسر نو بل تیار کرے گی۔ بھارت میں اب بھی پرائیویسی کے متعلق کوئی قانون سازی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی وجہ سے سے ڈیٹا سے متعلق ضابطوں کو الگ الگ شعبوں کے ضابطوں پر منحصر بنایا جارہا ہے۔ البتہ یہ کام ایک مشترکہ پرائیویسی پالیسی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔"
Published: undefined
سابقہ بل کے حوالے سے ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ مختلف فریقین کے ساتھ خاطر خواہ صلاح مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھارتی وزیر ویشنو کا کہنا تھا"یہ عمل بہت طویل نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمانی پینل نے اپنے جائزے کے دوران انڈسٹری کی رائے معلوم کی تھی۔"
Published: undefined
حکومت کا کہنا ہے کہ لوگو ں کی پرائیویسی اور ڈیٹا سکیورٹی کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔ حکومت نے کہا کہ بھارت میں حساس نجی معلومات کے غلط استعمال کے حوالے سے فکرمندی کافی بڑھ گئی ہے۔
Published: undefined
فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل سمیت دیگر کمپنیاں ٹیکنالوجی سیکٹر کے لیے حکومت کی طرف سے پیش کردہ مختلف ضابطوں پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں اور یہ معاملہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں اکثر کشیدگی کا سبب بھی بنتا رہا ہے۔
Published: undefined
سن 2019 میں اس بل کو پیش کرنے کے بعد مرکزی حکومت نے "غیر نجی ڈیٹا" کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئی تجاویز پیش کی تھیں۔ یہ ڈیٹا وہ اطلاعات ہیں جن کے تجزیے کا استعمال نجی کمپنیاں اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے کرتی ہیں۔ پارلیمانی پینل نے مشورہ دیا تھا کہ ان ضابطوں کو بھی پرائیویسی بل میں شامل کیا جانا چاہئے۔
Published: undefined
مذکورہ بل میں سرکاری ایجنسیوں کو"بھارت کی خود مختاری کے مفاد میں "ضابطوں سے مستشنیٰ رکھا گیا تھا۔ ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ سرکاری ایجنسیوں کو لامحدود اختیارات اور طاقت دیتا ہے، جس کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Published: undefined
انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر اپار گپتا کہتے ہیں،"کئی بڑی اور اہم فکرمندیاں تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نیا بل بہتر ہوتا ہے یا نہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined