سماج

کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟

راہل گاندھی کے مسلم لیگ کو 'مکمل سیکولر جماعت' قرار دینے سے متعلق بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔ کانگریس نے بی جے پی کو مسلم لیگ کے ساتھ 'دیرینہ روابط' یاد کرنے کا مشورہ دیا۔

کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟
کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟ 

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ پوری طرح سیکولر جماعت ہے۔ ان کے اس بیان پر بھارت میں سیاسی ہنگامہ شروع ہوگیا۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار دیا ہے۔

Published: undefined

بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کر کے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے کچھ لوگ اس شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جو مسلم لیگ کو سیکولر سمجھتا ہے۔ سابق وزیر قانون رجیجو نے سوال کیا کہ محمد علی جناح کی مسلم لیگ جو مذہبی خطوط پر قائم کی گئی تھی اور جو انڈیا کی تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے وہ سیکولر کیسے ہوسکتی ہے؟

Published: undefined

راہل نے کہا کیا تھا؟

راہل گاندھی، جنہیں عدالت کے ایک فیصلے کے بعد پارلیمان کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا ہے، ان دنوں امریکہ کے دس روزہ دورے پر ہیں۔ وہ مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں تقریریں کر رہے ہیں اور میڈیا اور عام لوگوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ جس میں وہ بالعموم مودی حکومت اور بھارت کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

Published: undefined

واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے با ت چیت کے دوران انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا، "مسلم لیگ مکمل طور پر ایک سیکولر جماعت ہے۔ مسلم لیگ کے بارے میں غیر سیکولر جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ میرے خیال میں جس شخص نے یہ سوال پوچھا ہے اس نے مسلم لیگ سے متعلق مطالعہ نہیں کیا ہے۔"

Published: undefined

دراصل بھارتی ریاست کیرالہ میں انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کانگریس کی قیادت والی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ حکومت کی اتحادی ہے۔ وہ بھارت کے الیکشن کمیشن سے تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے۔ راہول گاندھی پارلیمان سے نااہل قراردیے جانے سے قبل کیرالہ کے وائناڈ حلقے کی نمائندگی کرتے تھے۔

Published: undefined

بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امیت مالویہ نے راہل گاندھی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں اقتدار میں برقرار رہنے کے لیے مسلم لیگ کو سیکولر جماعت کہنا راہل گاندھی کی مجبوری ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کر کے کہا، "جناح کی مسلم لیگ انڈیا کو مذہبی خطوط پرتقسیم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ راہول گاندھی اسے سیکولر جماعت کہہ رہے ہیں۔ یہ لاعلمی انتہائی خطرناک ہے۔"

Published: undefined

کانگریس پارٹی کا جواب

کانگریس نے جناح کی مسلم لیگ کا کیرالہ کی مسلم لیگ سے موازنہ کرنے پر بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔ کانگریس کے میڈیا اور کمیونیکیشن شعبے کے سربراہ پون کھیڑا نے ایک ٹویٹ کرکے کہا، "ان پڑھ ہو بھائی؟ کیرل کی مسلم لیگ اور جناح کی مسلم لیگ میں فرق نہیں معلوم؟ جناح والی مسلم لیگ وہ تھی، جس کے ساتھ تمہارے آباؤ اجداد نے اتحاد کیا تھا۔ دوسری والی، مسلم لیگ وہ ہے، جس کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد کیا تھا۔"

Published: undefined

کیا بی جے پی اور مسلم لیگ میں واقعی رشتہ رہا ہے؟

ہندوتوا کی علمبردار آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں سن 2012 کے ناگپور میونسپل کارپوریشن کے انتحابات میں 62 سیٹیں جیت کر بی جے پی واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ تاہم 145رکنی کارپوریشن میں سادہ اکثریت کے لیے بی جے پی کو کم از کم 76 اراکین کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس وقت بی جے پی نے دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کے علاوہ انڈین یونین مسلم لیگ کے دو اراکین کی بھی حمایت حاصل کی تھی۔

Published: undefined

ہندوقوم پرست نظریات کی حامی ہندو مہاسبھا نے آزادی سے قبل صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ کنگس کالج لندن میں سیاسیات کے پروفیسر شارق لالی والا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہندوتوا کے نظریہ ساز اور ہندو مہاسبھا کے اہم رہنما شیاما پرساد مکھرجی نے بنگال میں 1941ء میں فضل الحق حکومت میں وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے بی جے پی شیاما پرساد مکھرجی کے سماجی انصاف کے ماڈل کو نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

Published: undefined

شارق لالی والا کے مطابق سندھ اور شمال مغربی صوبہ سرحد میں بھی ہندو مہاسبھا مسلم لیگ کے ساتھ اتحادی حکومتوں میں شامل تھی اور 3 مارچ 1943ء کو سندھ قانون ساز اسمبلی میں جب "انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک" کی قرارداد منظور کی گئی اس وقت بھی ہندو مہاسبھا کے رہنما حکومت میں شامل تھے۔ گوکہ انہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی لیکن حکومت میں برقرار رہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined