سماج

خواتین کی ایک لاکھ سے زائد فیک برہنہ تصاویر شئیر کی گئیں، عام لوگوں کی پرائیویسی خطرے میں

ماہرین نے ایک ایسے سافٹ ویئر کی نشاندہی کی ہے، جو خواتین کی نجی تصاویر کو عریاں تصاویر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پروگرام کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

خواتین کی ایک لاکھ سے زائد ڈیپ فیک برہنہ تصاویر شئیر کی گئیں
خواتین کی ایک لاکھ سے زائد ڈیپ فیک برہنہ تصاویر شئیر کی گئیں 

جرمن جریدے ڈئیر اشپیگل کی ایک رپورٹ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ٹیلی گرام میں شیئر ہونے والے ایک ایسے پروگرام کا سراغ لگایا ہے، جو چند ہی کلکس میں ایک عام تصویر کو برہنہ تصویر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ان نقلی یا ڈیپ فیک تصاویر کی تیاری میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آئی ٹی اینالائز کمپنی سینسٹی کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق جولائی دو ہزار بیس تک ٹیلی گرام کے مختلف چینلز پر ایسی ایک لاکھ چار ہزار سے زائد ڈیپ فیک تصاویر شئیر کی جا چکی تھیں۔

Published: undefined

مجرموں کا طریقہء کار

Published: undefined

ایک برہنہ تصویر بنوانے کے لیے مجرم مطلوبہ خاتون کی تصویر ٹیلی گرام کے ذریعے ایک پروگرام میں بھیجتے تھے اور کچھ ہی دیر بعد انہیں ردو بدل کرتے ہوئے برہنہ تصویر واپس بھیج دی جاتی تھی۔ سینسٹی کے ماہرین کے مطابق جو پروگرام برہنہ تصاویر تیار کرتا ہے، اس میں 'جنیریٹیو ایڈورسریل نیٹ ورکس‘ کی تیار کردہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے اور یہ نیٹ ورک مصنوعی ذہانت کے لیے مشہور ہے۔

Published: undefined

یہ پروگرام کام کیسے کرتا ہے؟

Published: undefined

اس پروگرام میں نیورل نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نیٹ ورک خودکار طریقے سے سیکھتا اور کام کرتا ہے۔ یہ خود ہی کسی ملبوس خاتون کے جسمانی خدوخال کا اندازہ لگاتا ہے۔ پھر یہ ایک اٹانومی تیار کرتا ہے اور ایک بالکل اصل نظر آنے والا برہنہ جسم تیار کر دیتا ہے۔

Published: undefined

یہ سافٹ ویئر ایسے تیار کیا گیا ہے کہ صرف خواتین کی تصاویر میں ہی رد و بدل کر سکتا ہے۔ تکنیکی میگزین 'دا ورج‘ کے مطابق ڈیپ فیک برہنہ تصاویر کی کوالٹی ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کئی تصاویر سے تو لگتا ہے کہ ان میں تبدیلی کی گئی ہے لیکن کئی تصاویر حیران کن حد تک اصلی نظر آتی ہیں۔ ٹیلی گرام کے متعدد چینلز میں اس حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں کہ کس طرح آپ اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

جتنی زیادہ تصاویر، اتنی زیادہ سستی

Published: undefined

ٹیلی گرام میں یہ پروگرام بوٹ کے ذریعے آفر کیا جاتا ہے۔ چیٹ کے دوران ایک نئی ونڈو کھلتی ہے اور وہاں صارف کے سوالات کے جوابات ایک پروگرام خودکار طریقے سے فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ نہیں پتا چلایا جا سکا کہ اس پروگرام کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ سینسٹی کے ماہرین کے مطابق یہ پروگرام صرف انگلش اور روسی زبان میں موجود ہے جبکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، جو تصاویر شیئر کی گئیں، ان میں سے زیادہ تر ان ممالک کے لوگ شامل تھے، جو سابق سوویت یونین کا حصہ رہ چکے ہیں۔

Published: undefined

اس رپورٹ کے مطابق جن تصاویر کو برہنہ تصاویر میں تبدیل کیا گیا، وہ زیادہ تر عام لوگوں کی نجی تصاویر تھیں یا پھر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اٹھائی گئی تھیں۔ عام پروگرام کی طرح اس پروگرام میں بھی ایک مفت ورژن فراہم کیا گیا ہے۔ مفت ورژن پر واٹر مارک چسپاں ہوتا ہے جبکہ پریمیم ورژن کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے اور واٹر مارک بھی نہیں ہوتا۔

Published: undefined

ڈیپ فیک تصاویر اور بلیک میلنگ

Published: undefined

سینسٹی کی رپورٹ کے مطابق، جو برہنہ تصاویر اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہیں، ان کی اصل تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ ڈیپ فیک برہنہ تصاویر ہمیشہ ہی اوپن پلیٹ فارمز پر شائع نہیں کی جاتیں۔ ڈیپ فیک سافٹ ویئر سن دو ہزار سترہ میں منظرعام پر آیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ خدشہ بہت زیادہ ہے کہ ایسی تصاویر خواتین کو بلیک میل کرنے یا انہیں دباؤ میں لانے کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

Published: undefined

مستقبل کا خطرہ

Published: undefined

ماہرین کے مطابق یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں مزید خطرناک رجحان اختیار کر سکتی ہے جبکہ جمہوری معاشروں میں ابھی سے اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہو چکی ہے۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈیپ فیک اور اصل تصاویر میں فرق کرنا مزید مشکل ہوتا جائے گا۔ سینسٹی کی رپورٹ کی مطابق فی الحال اس پروگرام کا زیادہ تر استعمال نجی سطح پر ہی ہو رہا ہے۔

Published: undefined

دریں اثناء ٹیلی گرام پر ایسے چینلز تلاش کرنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ سینسٹی کی اندازوں کے مطابق ٹیلیگرام انتظامیہ خاص طور پر ایسے چینلز بند کر رہی ہے۔ اس حوالے سے کئی ماہرین نے ٹیلی گرام سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن ٹیلی کام انتظامیہ کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined