مجھے جن جملوں سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے ان میں یہ جملہ سرِ فہرست ہے، ” بس جی آپ بے فکر ہو جائیں۔ سمجھیں کام ہوگیا۔ تسلی رکھیں‘‘۔ پھر ننانوے فیصد یہ ہوتا ہے کہ یا تو کام مکمل نہیں ہو پاتا یا اتنا ناقص ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا ہے اس سے بہتر تھا کہ میں خود ہی کر لیتا ۔یا پھر بالکل کام نہیں ہوتا اور جواباً کوئی نہ کوئی کہانی سننے کو ملتی ہے کہ یہ وجہ ہو گئی وہ وجہ ہو گئی ۔لیکن آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔دیر سویر تو ہوتی رہتی ہے مگر انشااللہ یہ کام سو فیصد ہو جائے گا۔
Published: undefined
ہم چونکہ ایک جگاڑو سماج میں رہتے ہیں جہاں ضرورت مند بھی جگاڑ پر قانع ہے اور کاریگر بھی جگاڑی ہے۔ (جگاڑ کا تسلی بخش اردو مفہوم مجھے نہیں معلوم)۔ تکا لگ گیا تو اپنا ہی سینہ چوڑا کر لیا۔ نہ لگا تو اپنی ناکامی حالات یا اللہ پر ڈال کے کپڑے اور ہاتھ جھاڑ لیے۔ ایسا ہنر بنا مستقل مزاجی نہیں آتا (بعض جہلا مستقل مزاجی کو ڈھٹائی بھی کہتے ہیں)۔
Published: undefined
اب یہی دکھ لیجے کہ صرف آٹھ ماہ میں پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھنے کے بجائے ساڑھے دس ارب ڈالر سے کم ہو کر پونے چھ ارب ڈالر رہ گئے۔ ان آٹھ ماہ میں زرِ مبادلہ کی شرحِ تبادلہ ایک سو اسی روپے فی ڈالر سے بڑھ کے دو سو چھبیس روپے تک جا پہنچی جبکہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر دو سو ستر روپے تک میں دستیاب ہے۔
Published: undefined
سیاسی بے یقینی اور دہشت گردی کی تازہ لہر کے سبب اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی ہاتھ کھینچ رکھا ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی روپے کی قدر میں تیز تر گراوٹ کے سبب اپنا پیسہ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجنے پر مائل ہیں۔
Published: undefined
کرنسی دلالوں اور اقتصادی پنڈتوں سے لے کر سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل تک ہر کوئی متفق ہے کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے اور اگر آئی ایم ایف کے پیکیج کی اگلی قسط ملنے میں مزید تاخیر ہوتی ہے یا چین و سعودی عرب جیسے ممالک کم ازکم تین تین ارب ڈالر کا اضافی ڈپازٹ اسٹیٹ بینک میں جلد نہیں رکھواتے اور اس کی واپسی کے شیڈول میں رعائیت نہیں دیتے تو اگلے چھ ماہ میں کوئی معجزہ ہی پاکستان کو واجب الادا بیرونی ادائیگیوں کی قسطیں بروقت دینے کے قابل بنا کے دیوالیہ پن سے بچا سکتا ہے۔
Published: undefined
مگر ایک شخص مسلسل ڈٹا ہوا کہے چلا جا رہا ہے کہ دیوالیہ پن کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اگلے چند ماہ میں نہ صرف موجودہ اقتصادی بحران کا رخ موڑ دیا جائے گا بلکہ افراطِ زر کے جِن کو بھی بڑی حد تک قابو کر لیا جائے گا اور ڈالری بخار سے پھک رہے روپے کو وینٹی لیٹر سے اتار لیا جائے گا۔ اس مستقل مزاج شخص کا نام ہے اسحاق ڈار۔
Published: undefined
جہاں ہر ایک کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں وہاں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے چہرے پر دائمی مسکراہٹ کھیل رہی ہے۔ یہ کیفیت عموماً تب پیدا ہوتی ہے جب صاحب مسکراہٹ کو بخوبی علم ہو کہ اب ہنس مکھ نظر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Published: undefined
یا پھر اس کے پاس مسائل کو حل کرنے کے لیے الہ دین کا چراغ یا کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو جس کی موجودی سے علمِ اقتصادیات کا کوئی اور ماہر ناواقف ہے ۔یا پھر یہ طنزیہ مسکراہٹ بھی ہو سکتی ہے کہ ”دیکھا یہ مجھے کوئی مالیاتی جادوگر سمجھ رہے ہیں‘‘۔
Published: undefined
اس ” ڈاریانہ‘‘ مسکراہٹ کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب بندے کو پتہ ہو کہ اسلام آباد سے لندن تک کا یکطرفہ ٹکٹ پہلے کی طرح جیب میں ہے۔کسی چمتکار کے سبب حالات خودبخود سدھرنے لگے تو ” دیکھا میں نہ کہتا تھا ‘‘ کہتے ہوئے سارا کریڈٹ خود لے لوں گا۔ حالات نہ سدھرے تو پتلی گلی سے ہوتا ہوا اگلی فلائٹ پکڑ لوں گا۔ پرنتو مسکراتا چہرہ برقرار رکھنے میں کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
مجھے ان سپاٹ چہروں سے خوف نہیں آتا جو تمام تر تلخ حقیقی صورتِ حال عام آدمی کے سامنے رکھ کے کہتے ہیں کہ کشتی بچانا ہے تو ہم سب کو تیزی سے بھرتے پانی کو باہر پھینکنے کے انتھک کام میں آستینیں اور پائنچے چڑھا کے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
Published: undefined
مجھے بس خود کو انجینیر کہلوانے والے مستری سے خوف آتا ہے۔ یا پھر اس مسکراہٹی ملاح سے ڈر لگتا ہے جو آخری وقت تک بتاتا رہے کہ گھبرانا نہیں اور پھر سب سے پہلے چھلانگ مار کے کنارے کی جانب تیرنا شروع کر دے اور ساحل پر پہنچ کے سمندر میں اٹھنے والے بلبلوں اور تیرتی چڈیوں کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوئے کہے کہ بس جی کوشش تو پوری کی آپ کے بھائی نے پر قدرت کو شائد یہی منظور تھا۔
Published: undefined
یہ اسی طرح کا جگاڑو دماغ ہے جو پندرہ دسمبر انیس سو اکہتر کی شام تک پوری قوم کو تھپک تھپک کے لوری سناتا رہا کہ دشمن افواج میری لاش پر سے گزر کے ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتی ہیں اور پھر اگلے روز اسی لاش نے پلٹن میدان میں کھچا کھچچ ہجوم کے درمیان ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر ستے ہوئے چہرے کے ساتھ دستخط کر دیے۔
Published: undefined
خیر ابھی یہ نوبت تو نہیں آئی مگر اسحق ڈار کی مسکراہٹ اور ان حکیم صاحب کے اطمینان میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے جن کے پاس ایک نوجوان اپنے والد کو لایا۔حکیم صاحب نے بہت سکون سے مریض کا تفصیلی معائنہ کیا اور پھر خود تیار کردہ گولیوں کی پڑیا تھماتے ہوئے کہا۔ گھبرانا نہیں ہے۔ یہ گولیاں والد صاحب کو صبح شام تین دن استعمال کروائیے۔ انشاللہ دست رک جائیں گے۔
Published: undefined
تین روز بعد نوجوان لٹکے چہرے کے ساتھ پھر حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا سناؤ میاں والدِ محترم کیسے ہیں کچھ افاقہ ہوا۔نوجوان نے کہا کہ حضورِ والا آج صبح والد صاحب گذر گئے۔ حکیم صاحب ماتھے پر کوئی ندامتی شکن لائے بغیر بولے ” جان تو اللہ کی امانت ہے برخوردار کم ازکم والدِ مرحوم کو دستوں سے تو افاقہ ہو گیا۔‘‘
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز