دبئی کے ایک وسیع نمائشی ہال میں عالمی کلائمٹ سمٹ (COP28) کا آغاز ہو گیا ہے۔ تقریباً 70,000 شرکاء کی اس کانفرنس میں شرکت متوقع ہے۔ اسے آب و ہوا سے متعلق اب تک کا سب سے بڑا اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
کانفرنس کے دوران کوشش کی جائے گی کہ کوئلہ، تیل اور گیس کے اخراج میں ممکنہ حد تک کمی پر بالآخر کسی ایک پالیسی پر اتفاق ہو جائے۔ دبئی روانگی سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا کہ عالمی برادری کو فوسل فیول کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔
Published: undefined
برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم سمیت عالمی رہنماؤں اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم عناصر ان 97,000 سے زیادہ لوگوں میں شامل ہیں، جو جگمگاتے اس خلیجی شہر پہنچ رہے ہیں۔ آب و ہوا سے جُڑے مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے بارے میں بات چیت کے لیے منعقد ہونے والا یہ اب تک کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اقوام متحدہ اور میزبان یو اے ای کا کہنا ہے کہ یہ پیرس 2015 ء کلائمٹ سمٹ کے بعد سب سے اہم اجلاس ہوگا۔
Published: undefined
پیرس میں تاہم اقوام نے صنعتی دور سے لے کر اب تک گلوبل وارمنگ کو 2 ڈگری سیلسیس سے کم کرنے اور ترجیحاً 1.5 ڈگری سیلسیس کی محفوظ حد تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا آف ٹریک ہے اور COP28 کے لیے اکٹھے ہونے والے تقریباً 200 ممالک کے مندوبین کو آب و ہوا کے تحفظ کے لیے اور زمینی حدت یا گرمی بڑھنے سے اس سیارے کو لاحق بدترین اثرات کو کم کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات میں تیزی لانا ہو گی۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ عالمی رہنماؤں کو فوسل ایندھن کے مکمل خاتمے یا ''فیز آؤٹ‘‘ کے مقصد کے حصول کے لیے تمام تر کوششیں کرنا چاہییں۔ تاہم اس تجویز کی مخالفت کچھ طاقتور ممالک نے کی ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں، جنہوں نے ماضی میں اس بارے میں مذاکرات کو روک دیا تھا۔
Published: undefined
COP28 میں مرکزی توجہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں اب تک ہونے والی محدود پیش رفت پر مرکوز رہنے کی امید کی جا رہی ہے، جس کے لیے ان مذاکرات میں سرکاری سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
عالمی کلائمٹ سمٹ کے دوران توقع کی جا رہی ہے کہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کو معاوضہ دینے کے لیے ''لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘‘کے اجراء کی باضابطہ منظوری دے دی گی۔ واضح رہے کہ اس بارے میں ایک سال تک مذاکرات جاری رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امیر قوموں سے تعاون کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ اس فنڈ میں پیسے اکھٹے ہونا شروع ہوں۔
Published: undefined
متحدہ عرب امارات خود کو امیر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ یہ خود ضرر رساں گیسوں کے تاریخی اخراج کا سب سے زیادہ ذمہ دار ملک ہے، جبکہ باقی دنیا، جس نے گلوبل وارمنگ میں کم حصہ ڈالا ہے، اس کے بدترین نتائج بھگت رہی ہے۔ COP28 کی میزبانی کے فیصلے نے اس خلیجی ریاست کو تنقید کے ایک طوفان سے دو چار کر دیا تھا۔ خاص طور پر کلائمٹ مذاکرات کے سلسلے کی بات چیت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سلطان الجابر‘ کو دی جانا ایک بڑا متنازعہ فیصلہ تھا جو، متحدہ عرب امارات کی ریاستی تیل کمپنی ADNOC کے سربراہ بھی ہیں۔
Published: undefined
جابر نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا اور سختی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے فوسل ایندھن کے نئے سودوں کو آگے بڑھانے کے لیے COP کی صدارت کا استعمال کیا۔ ان پر یہ الزامات پہلے بی بی سی نے رپورٹ کیے تھے۔ اقوام متحدہ کی آب و ہوا ایجنسی کی سابق سربراہ کرسٹیانا فیگیرس نے پیرس معاہدہ طے پاتے وقت COP میں فوسل فیول کمپنیوں کے کردار پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں '' نا اُمید ہو چکی ہیں‘‘ کہ فوسل فیول کمپنیاں درجہ حرارت کو کم کرنے کے حل کا حصہ بن سکتی ہیں۔
Published: undefined
گوٹیرش کا ماننا ہے کہ جابر تیل کی صنعت کو یہ بتانے کے لیے بہتر پوزیشن میں تھے کہ 'فوسل فیول فیز آؤٹ‘ ضروری ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر وہ کسی این جی او کے ممبر ہوتے تو انہیں بطور کلائمٹ ایکٹیوسٹ سمجھا جاتا۔
Published: undefined
اُدھر آئل چینج انٹرنیشنل کے عالمی پالیسی مہم کے مینیجر، رومین لوولالن نے کہا، ''ایک بہت واضح اشارہ کہ فوسل ایندھن کے دور کو بہت تیزی سے ختم ہونے کی ضرورت ہے، COP28 کے لیے ہمارا لٹمس ٹیسٹ ہے۔‘‘ خیال کیا جا رہا ہے کہ COP28 میں جہاں تمام اقوام، چاہے وہ تیل پر انحصار کرتی ہوں، بڑھتے ہوئے سمندروں کے نیچے ڈوب رہی ہوں یا جغرافیائی سیاسی دشمنی کا شکار ہوں، کی طرف سے متفقہ طور پر فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined