وزیراعظم نریندر مودی اور متعدد ریاستوں کے وزرائے اعلی کی موجودگی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنّا نے کہا کہ اس وقت بھارتی عدالتوں کو ججوں کی سخت کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا، "دس لاکھ افراد کے لیے ہمارے پاس صرف 20جج ہیں، جو بڑھتی ہوئی مقدمے بازی کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہیں۔"
Published: undefined
نریندر مودی حکومت نے گزشتہ ماہ بھارتی پارلیمان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ملک میں 4 کروڑ 70 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 70154 صرف سپریم کورٹ میں ہیں۔ ملک کی 25 ہائی کورٹوں میں 58 لاکھ 94 ہزار 60 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ زیریں عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد چار کروڑ 10 لاکھ 47 ہزار 976ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، لکش دیپ اور انڈمان و نکوبار جزائر کے اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں۔
Published: undefined
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا تھا، "عدالتوں میں مقدمات کو وقت پر نمٹانا بہت ساری باتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ ان میں ججوں اور عدالتی حکام کی مناسب تعداد، انفرااسٹرکچر، حقائق کی پیچیدگی، ثبوتوں کی دستیابی، فریقین کا تعاون اور ضابطوں اور طریقہ کار پر عمل درآمد شامل ہیں۔"
Published: undefined
بھارت کے پالیسی ساز حکومتی ادارے نیتی آیوگ نے سن 2018 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جس رفتار سے عدالتوں میں مقدمات کو نمٹایا جا رہا ہے اس لحاظ سے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے میں 324 برس سے زیادہ کا وقت لگے گا۔ سن 2018 میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 2.9 کروڑ تھی۔ ان میں 65 ہزار 695 کیسز ایسے تھے، جو 30 برس سے بھی زیادہ پرانے تھے۔
Published: undefined
بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے اور عدالتی نظام میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کیے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
وینو گوپال کا کہنا تھا، "انصاف کی فراہمی کا نظام کس قدر تباہ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی کیس کے زیر التوا کی اوسط مدت زیریں عدالتوں میں آٹھ برس ہے، اس کے بعد مزید آٹھ برس یہ ہائی کورٹوں میں زیر التوا رہتے ہیں۔آخر عوام کا انصاف کی فراہمی کے نظام پر اعتماد کیسے برقرار رہے گا؟"
Published: undefined
اٹارنی جنرل وینوگوپال کا کہنا تھا کہ اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی ملزم کے خلاف کیس کا فیصلہ ہونے سے قبل اسے اتنی مدت جیل میں گزارنی نہ پڑے جو اس کے جرم کی سزا ہو سکتی تھی۔
Published: undefined
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ کا کہنا تھا کہ 76 فیصد زیر سماعت قیدی انتہائی غریب ہوتے ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ کیس لڑ سکیں جس کی وجہ سے وہ جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بھارت میں عدالتی فیصلوں کی سست رفتاری کا ایک بڑا سبب ڈیجیٹلائزیشن کا نہ ہونا بھی ہے۔
Published: undefined
قانونی امور پر نگاہ رکھنے والے بھارتی صحافی سندیپن دیب کا کہنا ہے، "ہمارا عدالتی نظام ان شعبوں میں سے ایک ہے، جہاں سب سے کم ڈیجیٹلائزیشن ہوئی ہے۔ سن 2019 کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج سال میں اے 4 سائز کا 4.8 کروڑ کاغذ استعمال کرتے ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز