سماج

جڑانوالہ کا واقعہ:مسیحی برادری خوف کا شکار

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں گرجوں پر حملے اور نجی ملکیت کی توڑ پھوڑ نے مسیحی آبادی کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

 

دو مسیحی مردوں پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات لگانے کے بعد بدھ کو ایک مجمع نے جڑانوالہ کے علاقے 'کرسچین کالونی‘ میں چرچوں پہ حملے کیے جس سے جڑانوالہ اور دیگر علاقوں کے عیسائیوں میں خوف وہراس پیدا ہوگیا ہے. مسیحی تنظیمیں اور کارکنان یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو کب تحفظ ملے گا؟

Published: undefined

واضح رہے کہ جڑانوالہ میں بروز بدھ دومسیحی مردوں پر توہین مذہب اور توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد مساجد سے لاؤڈ اسپیکرز پر اعلان کیا گیا اور ایک مجمع نے اکٹھا ہو کر مختلف علاقوں میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے کلیساؤں پر حملے کیے اور اشتعال انگیز نعرے لگائے.

Published: undefined

مسیحی برادری کا دعوی ہے کہ چھوٹے بڑے ایک درجن سے زائد کلیساؤں کو مختلف علاقوں میں حملے کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سرکاری ذرائع صرف چند چرچوں کی بے حرمتی کا اعتراف کر رہے ہیں. ڈی ڈبلیو کو مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ کچھ کلیساؤں پہ حملے ہوئے ہیں جبکہ کچھ مکانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے.

Published: undefined

سخت سزا کا عندیہ

پنجاب حکومت نے اس واقعے کو ایک سازش قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان عامر میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جڑانوالہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوس ناک واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ مکروہ عمل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تاکہ عوامی جذبات کو ابھار کر فساد پھیلایا جائے اور امن و امان خراب کیا جاسکے.‘‘

Published: undefined

عامر میر کے مطابق امن و امان خراب کرنے والے درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ـ''قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے کی تحقیقات تیزی سے جاری ہیں اور اس واقع میں سازش کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر کوئی بھی شخص قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا، تو اسے فوری طور پرگرفتار کر لیا جائے گا۔ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔‘‘

Published: undefined

نگران وزیر اعظم انوا رالحق کاکٹرسمیت اس واقعے کی مذمت پی پی پی رہنما بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور دیگر سیاستدانوں نے بھی کی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ واقعے تمام حلقوں کی مذمت کی زد میں ہے۔

Published: undefined

شدید غم وغصہ اور خوف

تا ہم پاکستان کی مسیحی برادری ان حکومتی تسلیوں اور سیاست دانوں کے مذمتی بیانات سے مطمئن نظر نہیں آتے اور ان کے خیال میں غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے. اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن روبینہ بھٹی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کو کسی بھی سزا کا خوف نہیں ہے، اسی لیے وہ کئی برسوں سے نہ صرف عیسائیوں بلکہ دوسرے غیر مسلم پاکستانیوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”پوری کرسچین کمیونٹی میں بائبل اور کلیساؤں کی بے حرمتی پر شدید غم و غصہ ہے اور وہ خوف کا شکار بھی ہیں۔ اگر بے بسی کے عالم میں شکایت کرتے ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے یوحنا آباد، گوجرہ، عیسی نگری اور کئی ایسے واقعات ہیں جس میں ہمیں ٹارگٹ کیا گیا۔‘‘

Published: undefined

یہ سلسلہ کب تک چلے گا

روبینہ بھٹی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پوری کمیونٹی میں سکیورٹی کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں. ”عموما ایسے واقعات کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔‘‘ روبینہ بھٹی کا خیال ہے کہ، ''جب تک توہین رسالت اور توہین مذہب کے الزام لگانے والوں کو وہی سزا نہیں ملے گی، جو ملزم کو دی جاتی ہے اس وقت تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے.‘‘

Published: undefined

پولیس ایکشن کیوں نہیں لیتی

خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد عموماً مذہبی تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز استعمال کر کے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں. جڑا نوالہ کے واقعے میں بھی یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک شخص دھڑلے سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار رہا ہے اور ان کو حملے پر اکسا رہا ہے لیکن پولیس خاموش رہی۔ تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے ماضی میں پولیس والوں کے خلاف تشدد نے پولیس کا مورال کم کر دیا ہے. سینٹر فار سوشل جسٹس لاہور کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر اور سماجی کارکن پیٹرجیکب کا کہنا ہے کہ رینجرز اور آرمی کی تعیناتی وقتی طور پر سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سکیورٹی فراہم کرے. انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”جڑانوالہ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں اور جو لوگ علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کو سکیورٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں. پولیس اس لیے غالباً اقدامات نہیں کر رہی کیونکہ ماضی میں جب اس نے انتہا پسند تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔‘‘

Published: undefined

خوف ایک علاقے تک محددو نہیں

پیٹر جیکب کے مطابق خوف و ہراس صرف اس علاقے میں نہیں ہے جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''اس کے اثرات دوسرے علاقوں میں بھی ہیں. جڑا نوالہ اور فیصل آباد میں عیسائی آبادی پوکٹس میں رہتی ہے اور ان کے ارد گرد ہر طرف مسلم اکثریت ہے، جس کی وجہ سے وہ اب بھی خوف کا شکار ہے۔‘‘

Published: undefined

’بھرپور تفتیش کی جائے‘

مائناریٹیزالائنس پاکستان کے چیئرمین اکمل بھٹی کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے بہت ساری باتیں سامنے آرہی ہیں۔ لٰہذا توہین رسالت اور توہین مذہب کے لگائے جانے والے ان الزامات کی بھرپور تفتیش ہونی چاہیے.‘‘ اکمل بھٹی نے مزید کہا، ''ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی ملزم راجہ عامر نے اپنے محلے کے ایک شخص یاسین کو چار لاکھ روپے دیے تھے جس کے عوض وہ باہر جانے کا بندوبست کروانا چاہتا تھا لیکن یاسین راجہ عامر کو باہر نہیں بھیجوا سکا اور جب راجہ نے پیسے کی واپسی کا مطالبہ کیا تویاسین نے راجہ عامر پر یہ الزام لگوا دیا۔‘‘

Published: undefined

اکمل بھٹی کے بقول کہا جا رہا ہے کہ ملزم نے قران کے اوراق پر چند جملے لکھے لیکن ''ملزم راجہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس طرح جملے لکھ سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

روایتی بیانات

مسیحی برادری کے اراکین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو حکومت روایتی بیانات دے دیتی ہے لیکن وہ ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز کرتی ہے. کینیڈا میں مقیم عیسائی کارکن ندیم جوزف کا کہنا ہے کہ توہین رسالت اورتوہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ حکومت اس کا سد باب کرنے میں ناکام ہے. انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو حکومت کہتی ہے کہ اس نے نوٹس لے لیا ہے۔ اگر حکومت نے ماضی میں اقدامات کیے ہوتے تو آج بائبل اور صلیب کی بے حرمتی نہیں ہو رہی ہوتی اورکلیساؤں پہ حملے نہیں ہوتے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined