سماج

مظاہروں پر قابو پانے کے لیے اسمارٹ فون چینی حکام کے نشانے پر

چینی پولیس مبینہ طور پر شہریوں کو اچانک سر راہ روک کر ان کے موبائل فون ڈیٹا کی جانچ کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسمارٹ فون کی مجموعی نگرانی کے نظام کے تحت مظاہرین کو دھمکایا جا رہا ہے۔

مظاہروں پر قابو پانے کے لیے اسمارٹ فون چینی حکام کے نشانے پر
مظاہروں پر قابو پانے کے لیے اسمارٹ فون چینی حکام کے نشانے پر 

چین میں وکلاء اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں حکام لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں کو کم کرنے کے لیے نگرانی کے جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ کئی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شنگھائی جیسے بڑے شہروں میں پولیس سڑکوں پر یا سب ویز پر اچانک لوگوں کے فون چیک کر رہی ہے۔ پولیس نے لوگوں سے ذاتی معلومات فراہم کرنے اور ٹیلی گرام، ٹوئٹر یا انسٹاگرام جیسی ایپس کو فوری طور پر ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Published: undefined

اسمارٹ فون کی تلاشی

کچھ دیگر شہریوں کا کہنا ہےکہپولیس نے انہیں طلب کر کے ان کے فون کی تلاشی لی تھی۔ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے والے لِن نامی ایک شہری نے بتایا، ''پولیس نے مجھے ٹیلی گرام کا استعمال نہ کرنے کی تنبیہ کی اور مجھے سافٹ ویئر کے ذریعے وبائی امراض کے بارے میں معلومات کا اشتراک بند کرنے کو کہا۔‘‘

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''مجھے سڑک پر نہیں روکا گیا۔ مجھے شبہ ہے کہ پولیس کو پتہ چلا کہ میں ٹیلی گرام استعمال کر رہا ہوں۔ مجھے پولیس کی طرف سے دو الگ الگ کالیں موصول ہوئیں، جن میں مجھے خبردار کیا گیا کہ وبائی بیماری یا احتجاج کے بارے میں کچھ بھی شیئر نہ کرنا۔ میرے والد کو بھی ان (پولیس)کی طرف سے دھمکی آمیز کال موصول ہوئی۔‘‘

Published: undefined

اسمارٹ فون ہیک کیے جانے کے خدشات

چین بھر میں 20 سے زائد مظاہرین کو قانونی مدد فراہم کرنے والے وکیل شینگ شینگ وانگ کے مطابق پولیس لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور ان کے فون ضبط کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی ترجیح مظاہرین کے فون تک رسائی حاصل کرنا رہی ہے، '' ان میں سے کچھ رہا ہونے کے بعد اپنے فون واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن کچھ لوگ رہا ہونے کے بعد بھی پولیس سے اپنے فون واپس نہیں لے سکے۔‘‘

Published: undefined

وانگ کے مطابق گوانگژو میں کئی مظاہرین نے انہیں بتایا کہ پولیس کو ذاتی شناختی نمبر فراہم کرنے کے بعد ان کے ٹیلی گرام اکاؤنٹس میں لاگ ان کرنے کی بیرونی کوششیں دیکھی گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''ہیکنگ کی کوششیں اس وقت ہوئیں جب ان کے پاس فون تھے اور چونکہ یہی کچھ متعدد مظاہرین کے ساتھ ہوا اس لیے یہ محض اتفاق نہیں لگتا۔‘‘

Published: undefined

بیجنگ میں دیگر مظاہرین نے وانگ کو بتایا کہ انہیں احتجاج کے مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنے کے بعد پولیس کی طرف سے کال موصول ہوئی۔ اس خاتون وکیل کے مطابق، ''انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ احتجاج سے روکنے کے ایک دن بعد انہیں اور ان کے دوستوں کو پولیس نے کیوں طلب کیا۔ ایک معقول شبہ یہ ہے کہ پولیس نے ایک مخصوص جگہ اور مخصوص وقت پر مظاہرین کے فون کی لوکیشن کا تعین کرنے کے لیے نگرانی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہو گا۔‘‘

Published: undefined

وانگ پر چینی میسجنگ ایپ وی چیٹ پر گروپ پیغامات بھیجنے یا اسٹیٹس شیئر کرنے پر بھی عارضی طور پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں اپنی قانونی فرم کی کالوں سے بھی گریز کرتی رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ مقامی عدالتی محکمے کا پیغام مجھ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

چین ایک نگران ریاست

سائبر سیکیورٹی تھنک ٹینک یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کے فیلو لوک مین سوئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی پولیس کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہے کہ کسی خاص وقت میں کسی خاص مقام پر کون سے فون تھے۔ انہوں نے کہا،''چونکہ چین ایک نگرانی کرنے والی ریاست ہے جس میں قانون کی حکمرانی یا انسانی حقوق کا بہت کم خیال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ان کے لیے مشکل نہیں ہے۔‘‘ دیگر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ چونکہ یہمظاہرے اچانک کیے گئے تھے، اس لیے زیادہ تر شرکاء پہلے سے اس میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے چین کے لیے سینئیر محقق یاکیو وانگ کے مطابق، ''کچھ نوجوان مظاہرین نے پہلے کبھی اس طرح کے مظاہروں میں حصہ نہیں لیا، اس لیے ان کے پاس یہ جاننے کا تجربہ نہیں ہے کہ اپنی حفاظت کیسے کی جائے۔‘‘ جاپان کی میجی یونیورسٹی میں تقابلی قانون کے انسٹی ٹیوٹ کے محقق پیٹرک پون نے کہا کہ جن چینی شہریوں نے مظاہروں میں حصہ لیا ہے یا جو اب بھی مظاہروں میں شامل ہو رہے ہیں انہیں اپنے فون سے حساس ایپس کو ہٹانے پر غور کرنا چاہیے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا، خود کو بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حساس ایپس کو ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ ایک مخصوص میسجنگ ایپ پر انحصار کرنے کے بجائے انہیں ان ایپس کو متنوع بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے جو وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

وانگ کے مطابق اگرچہ زیادہ تر مظاہرین یقینی طور پر پولیس کی طرف سے طلب کیے جانے کے بعد مزید مظاہروں میں شامل ہونے کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہوں گے لیکن کریک ڈاؤن دیگر افراد کی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتا ہے اور وہ مستقبل میں حقیقی کارکن بن سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined