پاکستانی صوبے سندھ میں بچوں میں ایچ آئی وی کی بیماری نے شہزادو شار کو اکثر دوا یا خوراک میں سے ایک منتخب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے پانچ سالہ بیٹے میں سن 2019 میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس سے قبل ایک ڈاکٹر نے صوبہ سندھ کی طبی تاریخ کے ایک بدترین میڈیکل اسکینڈل کو بے نقاب کیا تھا۔ اس ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے۔
Published: undefined
صوبائی وزارت صحت کے مطابق دو برسوں میں مجموعی طور پر 15 سو سے زائد افراد میں ایچ آئی وی تشخیص کیا گیا۔ رتوڈیرو میں اسی تناظر میں آیچ آئی وی کی جانچ اور علاج کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا مرکز قائم کیا گیا۔ اس مرکز سے ایچ آئی وی کے مریضوں کو زندگی بچانے والی ادویات مفت مل رہی ہیں، تاہم متاثرہ خاندانوں کو اضافی اخراجات خود اٹھانا پڑتے ہیں۔
Published: undefined
شہزادو شار اپنے بیٹے کی مسلسل بخار پیٹ اور گردوں میں درد کا بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ''وہ کہتے ہیں کہ اضافی ٹیسٹ کے لیے پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاؤ۔ مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
رتو ڈیرو سے فقط چند کلومیٹر کے فاصلے پر سبہانی شار گاؤں میں قریب 30 بچے ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے پبلک ہسپتال، جو زیادہ تر بڑے شہروں میں قائم ہیں، عموماﹰ غیرمعمولی رش کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دیہات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو نجی ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جب کہ ان دیہاتیوں میں سے زیادہ تر ہسپتالوں کی بھاری فیس ادا نہیں کر سکتے۔ ایسے میں بہت سے لوگ غیر سند یافتہ ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
Published: undefined
آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فاطمہ میر، جو اس حوالے سے اعدادوشمار پر تحقیق میں مصروف ہیں، بتاتی ہیں کہ ایچ آئی وی کی تشخیص سے اب تک کم از کم پچاس بچے فوت ہو چکے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں کم اور عدم خوراکی بھی بچوں میں اموات کا سبب ہے۔
Published: undefined
حکام کا کہنا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کی وجہ رتو ڈیرو کا ایک مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ مظفر گھانگرو تھا۔ اس ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا تھا، مگر ان دنوں یہ ضمانت پر رہا ہے۔ گھانگرو تاہم ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined