گھروں کے اندر جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کے حوالے سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو سنیں اور ان کی بات پر اعتبار کریں۔
Published: undefined
جرمنی میں بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق آزاد کمیشن سے جڑی متاثرہ بچوں کی کونسل کی رکن انگیلا مارکوارڈٹ کے مطابق، ''میں وہ دن نہیں بھولتی، جب کسی نے مجھ پر اعتبار کیا ہو۔‘‘
Published: undefined
جنسی تشدد سے متعلق عوامی سطح پر آکر بتانے والے متاثرہ افراد میں سے نصف سے زائد بہ شمول مارکوارڈٹ ایسے ہیں، جو اپنے گھروں میں اپنے ہی اہل خانہ کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔
Published: undefined
اس معاملے پر کسی باقاعدہ تحقیق کی کمی رہی ہے۔ مارکوارڈٹ اصرار کرتی ہیں کہ بچوں اور کم عمروں پر کم یقین کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں جنسی تشدد کے سامنے پر مدد نہیں مل سکتی۔ اس رپورٹ کے مطابق متاثرہ بچوں کو عموماﹰ سوتیلے باپ، انکل، دادا یا نانا، بھائی، سوتیلی ماں اور دیگر رشتہ داروں کے ہاتھوں اس اذیت کا سامنا ہوتا ہے۔
Published: undefined
بچوں کے جسنی استحصال کے آزاد کمیشن کی چیئرپرسن زابین انڈریزن کہتی ہیں کہ کوئی بچہ اپنے آپ کو خاندان سے آزاد نہیں کر سکتا، ''یہی وجہ ہے کہ خاندان کا بہ ظاہر محفوظ ماحول اس بچے کے لیے ایک پنجرہ بن جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
اینڈریزن ''خاندان میں جنسی استحصال، 1945 سے آج تک بچوں پر جنسی تشدد سے سماجی چشم پوشی‘ کے نام سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اس رپورٹ میں ہر طرح کے جنسی استحصال سے متعلق کھل کر بات کی گئی ہے، جس میں زبانی جنسی حملوں سے ریپ تک سب کا ذکر ہے۔
Published: undefined
پانچ برسوں کے عرصے میں محققین نے آٹھ سو ستر متاثرہ افراد سے کانفیڈینشل بات چیت کی یا ان کے تحریری بیانات کا تجزیہ کیا۔ متاثرہ افراد میں نوے فیصد تعداد لڑکیوں کی تھی اور ان میں بعض متاثرین ایسے بھی تھے، جنہیں خاندان میں ایک سے زائد افراد نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق متاثرین میں سے نصف ایسے تھے، جن کے ساتھ جنسی تشدد کا آغاز چھ برس کی عمر سے ہوا، جب کچھ نومولود بھی تھے۔
Published: undefined
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جنسی تشدد میں ملوث افراد میں زیادہ تعداد مردوں کی تھی جب کہ متاثرین میں سے بیشتر کو یہی علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں ایک متاثرہ فرد کا کہنا تھا، ''میں اپنے گرینڈفادر کے ہاتھوں اس وقت جنسی استحصال کا نشانہ بنی جب میں بول بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے اسے نام دینے میں ایک طویل سفر سے گزرنا پڑا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined