چینی حکومت کی طرف سے نئے اعدادوشمار جاری کیے گئے، جس کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں بھی گزشتہ ایک عشرے سے جاری وہ رحجان حاوی نظر آیا، جس میں چینی شہری بچے پیدا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
Published: undefined
یہ پیش رفت چینی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ملک میں نہ صرف انسانی وسائل کی کمی رونما ہو رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی بیجنگ حکومت کے ان عزائم کو بھی خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے، جن کے تحت وہ اپنی قومی دولت میں اضافہ اور عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔
Published: undefined
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس چین میں دس اعشاریہ چھ ملین بچے پیدا ہوئے، جو سن دو ہزار بیس کے مقابلے میں بارہ فیصد کم تھے۔ سن دو ہزار بیس میں چین میں بارہ ملین کے لگ بھگ بچے پیدا ہوئے تھے۔
Published: undefined
قومی دفتر برائے شماریات کے مطابق سن دو ہزار اکیس کے اختتام تک چین کی مجموعی آبادی ایک اعشاریہ چار سو تیرہ بلین نوٹ کی گئی، جس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ایک برس میں چین کی آبادی میں صرف چار لاکھ اسی ہزار نفوس کا اضافہ ہوا۔
Published: undefined
آبادی کی شرح میں اس کمی کی وجہ سے چینی حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے، جس کے تحت وہ ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری کے بجائے صارفین کے اخراجات کے پیش نظر نئی ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبہ جات بنائے ہوئے ہے۔
Published: undefined
چین میں ریٹائر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ ان ملازمتوں کے لیے مطلوبہ انسانی وسائل کی کمی کی وجہ سے چین کی معشیت کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ ماہرین چینی آبادی میں اضافے میں مسلسل اور بتدریج ہونے والی اس کمی کو ایک ٹائم بم بھی قرار دے رہے ہیں۔
Published: undefined
چین نے سن انیس سو اسی میں آبادی پر کنٹرول اور وسائل کی بچت کی خاطر بچوں کی پیدائش کو محدود بنانے کے لیے قانون سازی کی تھی تاہم سن دو ہزار گیارہ میں اس حوالے سے خدشات ظاہر کیے جانے لگے تھے۔
Published: undefined
سن دو ہزار پندرہ میں حکمران پارٹی نے اس پابندی کو ختم کیا لیکن بالخصوص ماؤں کے لیے ملازمت کے مشکل اوقات اور امتیازی سلوک کے علاوہ مہنگائی کی وجہ سے چینی والدین نے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل جاری رکھا۔
Published: undefined
ماہرین مردم شماریات نے خبردار کیا ہے کہ آبادی میں اضافے کا تناسب اگر یہی رہا تو سن دو ہزار پچاس تک چین میں ورکنگ کلاس نصف رہ جائے گی۔ چین میں انسانی وسائل میں کمی کے حوالے سے یہ خدشات ایک ایسے وقت میں ظاہر ہو رہے ہیں، جب چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے دفاعی بجٹ میں بے انتہا اضافہ کیا ہے اور عالمی اقتصادی مقابلہ بازی میں الیکٹرک کاروں اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں حکومتی اخراجات بڑھائے ہیں۔
Published: undefined
جاپان، جرمنی اور کچھ دیگر امیر صنعتی ممالک میں آبادی میں کمی اور ورکنگ کلاس کی بڑھتی ہوئی عمروں کو ایک مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم یہ ممالک فیکٹریوں، ٹیکنالوجی اور غیر ملکی اثاثوں پر سرمایہ کاری سے اس مشکل سے نمٹ سکتے ہیں تاہم چین کی اقتصادیات کا زیادہ تر دارومدارد کاشت کاری اور مزدوری سے جڑے شعبہ جات سے، جس کے لیے انسانی وسائل ناگزیر ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined