ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے (ارنا) نے سات مئی اتوار کے روز یہ اطلاع دی کہ ملک کی ایتھلیٹکس فیڈریشن کے سربراہ ہاشم سیامی نے کھیلوں کے ایک ایسے ایونٹ کے حوالے سے اپنا استعفیٰ سونپ دیا، جہاں خواتین نے لازمی ہیڈ اسکارف کے بغیر مقابلہ کیا تھا۔
Published: undefined
ایجنسی نے بتایا کہ ''ہاشم سیامی نے جنوبی ایران کے شیراز میں منعقدہ اس دوڑ سے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، جہاں پر خواتین نے بغیر اسکارف کے دوڑ کے ایک مقابلے میں حصہ لیا۔''
Published: undefined
ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور فوٹیج میں خواتین کو بغیر حجاب کے کھیلوں کے لباس میں دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سن 1980 کی دہائی سے عوامی جگہوں پر ملک میں خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی ہے۔
Published: undefined
ہاشم سیامی کا استعفیٰ اس وقت سامنے آیا، جب صوبائی پراسیکیوٹر نے میراتھن کے منتظمین کو ''تباہ کن'' کام کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں جواب دینے کے لیے طلب کیا۔ پراسیکیوٹر مصطفیٰ بحرینی نے مزید کہا کہ ''اہلکاروں کی کوتاہیوں، غلط کاموں اور اس کے ممکنہ قصورواروں سے تفتیش کی جائے گی۔''
Published: undefined
خبر رساں ادارے ارنا نے ہشام سیامی کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کھیل کے اس ایونٹ کے انعقاد میں شامل نہیں تھے، اور یہ کہ جن خواتین کھلاڑیوں نے بغیر حجاب کے دوڑ میں حصہ لیا وہ قومی فیڈریشن کا حصہ بھی نہیں ہیں۔
Published: undefined
حجاب پر ہی کرد نژاد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایران میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے ملک لرز اٹھا۔ 22 سالہ لڑکی کو پولیس نے غلط طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، جن کی پولیس کی حراست میں ہی موت ہو گئی تھی۔
Published: undefined
اس واقعے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران، جو تصاویر اور میڈیا کی رپورٹس سامنے آئیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی بہت سی خواتین لباس اور حجاب سے متعلق ایران کے سخت قانون کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں۔
Published: undefined
قانون کی مخالفت کرنے والی بہت سی خواتین نے بطور احتجاج اپنے بال تک کاٹ دیے جبکہ ایک بڑی تعداد میں بغیر اسکارف کے مظاہروں میں بھی شامل ہوئیں۔ ادھر ایرانی حکام کی جانب سے اس رجحان کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق تہران میں حکام نے گزشتہ ہفتے ہی کم از کم معروف چار ایسی اداکاراؤں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، جو حجاب کے بغیر عوام کے سامنے نکلی تھیں۔
Published: undefined
گزشتہ ماہ حکام نے کہا تھا کہ ایران بھر میں 150 سے زیادہ ان تجارتی اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے، جن کے ملازمین نے مبینہ طور پر ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس قدر سخت مخالفت کے باوجود ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت حجاب پہننا لازمی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined