یہ بحیثیت قوم خواتین کی طرف ہمارا عمومی رویہ بھی ہے۔ زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ شوبز اور میڈیا کی اہم شخصیات، جن کو ہزاروں لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں، انہیں ایک بہتر اور ذمہ دار رائے قائم کرنے کی بجائے اس گھناؤنے عمل میں شریک دیکھا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
پچھلے دنوں شوبز کی ایک مشہور شخصیت وینا ملک کا ٹویٹ دیکھا گیا، جس میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کے بارے میں نہایت بے ہودہ الفاظ استعمال کیے گئے تھے اور جن کا صرف ذکر کرنا ہی ایک باشعور انسان کے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ اس ٹویٹ کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر لوگوں کو مریم نواز کی ذاتیات پر حملے کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔
Published: undefined
لیکن مسئلہ صرف سوشل میڈیا پر خواتین سیاست دانوں کی ذاتی زندگیوں پر بات کرنے کا نہیں ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں شروع سے ہی خواتین کی کردار کشی کی جاتی رہی ہے اور سیاسی اختلاف کی آڑ میں بد اخلاقی کی ساری حدیں پار کرنا ان مفاد پرست سیاست دانوں کا پرانہ وطیرہ ہے۔
Published: undefined
تاریخ گواہ ہے کہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ایک جلسے میں ان پر ہونے والا ذاتی حملہ آج بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کہ محترمہ سے پوچھا جائے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتیں؟
Published: undefined
اس کے بعد خود پیپلز پارٹی کی خواتین بھی اس طرح کے رویے کا نشانہ بنیں اور سیاسی مخالفین کی طرف سے ہونے والی ان کی کردار کشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بیگم نصرت بھٹو اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی نازیبا تصاویر ہیلی کاپٹر سے گرانے کا عمل بھی مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے اوچھے ہتھکنڈوں میں شامل رہا۔
Published: undefined
گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈہ آرڈرن نے بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کو سیاست میں آنے والی خواتین کے لیے ایک عمدہ مثال قرار دیا، جبکہ ہمارے یہاں اب بھی خواتین کے ساتھ یہ متعصبانہ سلوک روا رکھا جانا عام ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کو بھی اس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جہاں سیاسی مخالفین نے نہ صرف عمران خان کی بہنوں کے بارے میں عامیانہ باتیں کیں بلکہ دھرنے میں آنے والی خواتین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا اور پارٹی ترانوں پر جھنڈے لہرانے والی خواتین کے لیے 'مجرے‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ سابق خاتون اول بشری بی بی کے لیے ''پنکی پیرنی اور جادوگرنی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے اور ان کے بارے میں عجیب وغریب کہانیاں نہ صرف سیاسی حلقوں میں بلکہ میڈیا پر بھی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔
Published: undefined
پارلیمان جو کہ ملک کا اہم ترین ادارہ ہے، وہاں بھی خواتین کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے ان پر نازیبا جملے کسے جاتے ہیں اور خواجہ آصف کی طرف سے محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کے لیے ''ٹریکٹر ٹرالی‘‘ جیسے الفاظ ان سیاست دانوں کی ذہنی پسماندگی کا ثبوت ہیں۔
Published: undefined
بحیثیت سوشیالوجی کے طالب علم کے میں ان رویوں کا ذمہ دار معاشرے کی مجموعی سوچ کو ٹھہراؤں گی، جس میں ہمیں خواتین کے احترام کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہاں خواتین کے خلاف گالم گلوچ مردوں کا عمومی رویہ ہے۔
Published: undefined
جس ملک میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف غصے اور اختلاف کا اظہار ماں، بہن، بیٹی کو گالی دے کر کرتے ہوں، وہاں سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ان کی کردار کشی اسی معاشرتی بیماری کی عکاسی ہے۔
Published: undefined
یہ رویہ سیاسی جلسوں اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، جہاں سیاسی مباحثوں میں تنقید کے نام پر ایک دوسرے کی نا صرف عزت اچھالی جاتی ہے بلکہ ایک طوفانی بدتمیزی برپا ہوتا ہے۔
Published: undefined
پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ایک طرف تو سیاست ویسے ہی بدنام ہے، وہیں دوسری طرف اس طرح کے رویے خواتین کی سیاست میں شمولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سارے سیاسی منظر نامے کا بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سیاست میں ہی اصلاحات کی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں اور نمائندگان کی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ان کے ورکرز اور عام عوام بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک سیاسی شعور اور بہتر اخلاقی کردار کا مظاہرہ کریں۔
Published: undefined
معاشرے میں نہ صرف گھریلو خواتین بلکہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی اور سیاست میں آنے والی خواتین کے احترام اور تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے ورنہ یہ معاشرہ اپنی پسماندگی اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کا خود ہی ذمہ دار ہو گا۔ (نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined