ہاسٹل کی لڑکیاں اس کے بارے میں عجیب وغریب کہانیاں گھڑنے لگی تھیں اور اس کو کسی پراسرار بیماری کا شکار بتاتی تھیں لیکن کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر اس کے اس بدلے ہوئے رویے کی وجہ کیا تھی؟
Published: undefined
ایک دن جب وہ ہاسٹل کے میس ہال میں کھانے کی میز پر اکیلی بیٹھی کھانا کھا رہی تھی تو میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور بہانے بہانے سے اس سے بات کرنے لگی۔ وہ میری بات کا جواب دے کر خاموش ہو جاتی اور مزید کوئی بات نہ کرتی۔ آخر کار میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اسے کیا ہوا ہے اور اتنی پژمردہ کیوں دکھائی دیتی ہے؟
Published: undefined
سدرہ نے یہ سوال سن کر کھانے کی پلیٹ سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے اور وہ میرے سامنے زار و قطار رونے لگی۔ میں نے اسے رونے دیا کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو۔ پھر ہم دونوں باہر لان میں چلے گئے اور ایک طرف پڑے بنچ پر بیٹھ گئے۔
Published: undefined
اب کی بار میرے کچھ پوچھنے سے پہلے وہ خود ہی بولنے لگی مگر آواز جیسے اس کے گلے میں پھنس رہی تھی۔ سدرہ نے بتایا کہ پچھلے چند مہینوں سے اس کو شدید نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے، بیٹھے بٹھائے اچانک اس کو گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کا دل اتنا زور زور سے دھڑکتا ہے، جیسے ابھی حلق میں آ جائے گا۔
Published: undefined
میں چونکہ نفسیات کی طالب علم رہی ہوں تو علامات سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری دوست کو جس حالت کا سامنا ہے، اس کو نفسیات کی زبان میں panic disorder کہتے ہیں اور بہت حد تک ممکن ہے کہ اس کو anxiety یا depression ہو، جس کی تشخیص کے لیے ہم نے اگلے دن ہی ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کا ارادہ کیا۔
Published: undefined
نفسیاتی مسائل کو پر اسرار بیماریاں اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ان سے متعلق معلومات کی کمی ہے۔ لیکن ان مسائل کی شرح اتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک انسان خودکُشی کرتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ اس طرح کے ذہنی مسائل ہیں۔ ذہنی بیماریوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں ڈپریشن، اینزائٹی، سکٹزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، بارڈر لائن پرسنیلٹی، اور پی ٹی ایس ڈی وغیرہ عام ہیں، ان کا علاج ادویات اور تھراپی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔
Published: undefined
ہمارے ہاں چونکہ ذہنی مسائل کے حوالے سے کم علمی پائی جاتی ہے اور نفسیات و دیگر نئے علوم سے نا واقفیت عام ہے لہذا نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی طرف جاہلانہ اور منفی رویے بھی عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔
Published: undefined
ذہنی بیماریوں کو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی آسیب اور جن بھوتوں سے جوڑا جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں سے ان کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں بہت سارا پیسہ اور توانائی برباد کرنے کے بعد بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا اور یہ مسائل وقت کے ساتھ مزید تکلیف دہ اور شدید ہوتے جاتے ہیں۔
Published: undefined
اکثر لوگ ذہنی مسائل کو دین سے دوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ذکر ونماز کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ جانے انجانے میں ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کو ٹھیس پہنچانے کے سوا کچھ مدد نہیں کر پاتے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ بہت سے لوگ روحانیت ومذہب میں سکون حاصل کرتے ہیں مگر ذہنی مسائل کو دیگر جسمانی بیماریوں کی طرح توجہ نہ دینا اور اس طرح کے توہم پرستانہ خیالات ان مسائل کو پیچیدہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
Published: undefined
یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ذہن اور جسم کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور نفسیاتی مسائل اکثر جسمانی بیماریوں کی شکل میں بھی رونما ہوتے ہیں، جس کو نفسیات کی زبان میں سائیکو سومیٹک کنڈیشن کہہ سکتے ہیں۔
Published: undefined
شہروں میں لوگ پھر بھی ان مسائل کے بارے میں کچھ حد تک علم رکھتے ہیں اور کم تعداد میں سہی لیکن ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے۔ دیہاتوں کی حالت اس حوالے سے تشویش ناک ہے اور آج بھی اگر کوئی شخص ذہنی طور پر پریشان ہو تو اس لیے بھی کسی کو بتا نہیں پاتا کہ کہیں اسے پاگل نہ سمجھ لیا جائے۔
Published: undefined
ہمارے یہ جاہلانہ اور بے وقوفانہ رویے ان مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ لوگ ان مسائل پر بات کرنے کی بجائے انھیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر خواتین میں یہ مسائل اس لیے بھی سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں کہ والدین کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اگر ان کی بیٹی کسی نفسیاتی عارضے کے حوالے سے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرے گی، تو لوگ کیا کہیں گے اور پھر لڑکی کی رشتے کے لیے یہ بات مسئلہ بن جائے گی، تو اس کو جتنا دبایا جائے، بہتر ہے۔
Published: undefined
گاؤں کی بڑی بوڑھیوں کو یہ کہتے بھی سنا جاتا ہے کہ شادی کر دو خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ خواتین میں ان مسائل کی شرح مردوں سے زیادہ ہے مگر مردوں میں خودکُشی کی شرح نسبتاً زیادہ ہے چونکہ مرد کو بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا لہذا وہ اپنے نفسیاتی مسائل کو خود بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور مختلف نشہ آور چیزوں کا سہارا لے کر خود کو پر سکون رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ یہ مسائل مزید سنگین ہوتے جاتے ہیں۔
Published: undefined
معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے کافی ہیں کہ اجتماعی طور پر اس معاشرے میں عدم برداشت، بے حسی، تشدد اور نا انصافی عام ہے۔ یہ معاشرتی مسائل بھی ان ذہنی امراض کو جنم دیتے ہیں جبکہ ان مسائل کی دیگر سماجی وجوہات میں گھریلو تشدد، بےروزگاری، بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد، پدرشاہی نظام اور خواتین کے ساتھ ہراسگی وغیرہ بھی شامل ہیں، جو ناصرف پہلے سے موجود عارضوں کو شدید کر دیتے ہیں بلکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔
Published: undefined
بچے بڑے ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار یوں ہی نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے بیج بچپن میں ہی ان کے ذہنوں میں بو دیے جاتے ہیں۔ ان پر ہونے والا تشدد، عدم مساوات، والدین کی غفلت، بےجا سختی اور دباؤ ان میں نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
Published: undefined
والدین کو چاہیے کہ آج کل کے جدید دور میں جہاں بچوں کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے، ان کی تربیت کے لیے بھی ماڈرن پیرینٹنگ کے طریقے سیکھیں تاکہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ دوستانہ ہو اور بچے ہر موضوع پر والدین سے گفتگو کرسکیں اور ان سے رہنمائی لے سکیں۔
Published: undefined
اگر ایسے نہیں ہوگا تو وہ ان نفسیاتی مسائل کا حل غلط دوستیوں میں پڑ کر نشے و دیگر بری اور صحت کے لیے مضر سرگرمیوں میں تلاش کریں گے۔ نئی نسل میں مختلف قسم کے نشوں کی عادت بھی ذہنی بیماریوں کے سبب ہے۔ چونکہ نشہ ذہنی سکون کا ایک آسان حل نظر آتا ہے، اس وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
ان مسائل کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں اور سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہی نہیں بلکہ ٹی وی پر ڈراموں اور فلموں کی صورت میں ان موضوعات کو زیرِ بحث لاکر معلومات فراہم کی جائیں۔
Published: undefined
مزید یہ کہ ان بیماریوں کے سماجی اسباب کا سدباب کرنا بھی بہت ضروری اور ناگزیر ہے۔ ان کو نظر انداز کرنا اور ان سے غفلت برتنا اتنا مہنگا پڑے گا کہ جس کا بار یہ معاشرہ زیادہ دیر تک اٹھا نہیں پائے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined