بھارت میں کھیلوں کے فروغ اور نگرانی کے ادارے اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی) نے گزشتہ ہفتے سائیکلنگ کے چیف کوچ آر کے شرما کو ایک خاتون سائیکلسٹ کی شکایت پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ اس سائیکلسٹ نے شرما پر سلووینیا کے ایک تربیتی دورے کے دوران 'نامناسب رویہ‘ اپنانے کا الزام لگایا تھا۔
Published: undefined
اس خاتون ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ کوچ نے اسے یہ کہہ کر اپنے ساتھ ہوٹل کےکمرے میں رہنے پر مجبور کیا کہ دو افراد کے لیے ایک کمرہ بک کیا گیا ہے۔ ایک تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں شرما کے خلاف لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیا گیا ہے۔
Published: undefined
اسی ہفتے جب سائیکلنگ کوچ کا معاملہ منظر عام پر لایا گیا، بھارت کی صف اول کی ایک خاتون کشتی ران نے اپنے کو چ پر جرمنی میں تربیت کے دوران اسے ''بے آرام‘‘ کرنے کا الزام لگایا۔ اس ایتھلیٹ نے کئی بار سیلنگ فیڈریشن کے ساتھ مسئلہ اٹھانے اور وہاں سے کوئی جواب نہ ملنے کے بعد مداخلت کے لیے ایس اے آئی کا رخ کیا۔ یہ تازہ ترین واقعات ان بے شمار الزامات اور واقعات میں سے ہیں، جو گزشتہ چند برسوں میں تسلسل کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں سات خواتین ایتھلیٹس نے مشہور اسپورٹس کوچ پی ناگ راجن کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔
Published: undefined
ایک اور واقعے میں ایک 19 سالہ خاتون کھلاڑی نے الزام لگایا کہ ناگ راجن نے اسے اور اس کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ناگ راجن چاہتا تھا کہ وہ خاتون کھلاڑی اس کے خلاف کوئی کارروارئی کر کے مسائل پیدا نہ کرے۔ اس خاتون کی شکایت پر ناگ راجن کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
Published: undefined
گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور کھیل کی سی ای او پیوشنی مترا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کھیلوں کے پس منظر میں کوچ اور ایتھلیٹ کے رشتے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے آواز بلند کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔‘‘
Published: undefined
پیوشنی مترا نے مزید کہا، ''کھیل میں تابعداری کا کلچر ہے اور اس لیے گرومنگ عام ہو جاتی ہے، جس سے کھلاڑیوں کے لیے آگے آنا اور شکایت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
مترا نے کہا، ''کھیلوں میں خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہنے کا کلچر بھی ہے۔ لوگ بدسلوکی کا علم ہونے کے باوجود کارروائی نہیں کرتے۔ یہ خاموش تماشائی خاص طور پر طاقتور ملزم کے حق میں خاموشی برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
معلومات تک رسائی کے حق کے تحت جمع کرائی گئی درخواست کے نتیجے میں جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2010 سے سن 2020 کے درمیان ایس اے آئی کو جنسی حراسانی کی 45 شکایات موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 29 کوچز کے خلاف تھیں۔ تاہم ان شکایات پر کارروائی کی شرح بہت کم تھی۔ پانچ کوچز کو تنخواہوں میں کمی کے ساتھ جرمانہ بھی کیا گیا، ایک کو معطل اور دو کے معاہدے ختم کر دیے گئے۔
Published: undefined
ایک صف اول کے کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طویل تفتیشی عمل کی وجہ سے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔ کچھ کوچز کو نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ بدسلوکی اب بھی بھارتی کھیلوں کے ماحول کا حصہ ہے، خاص طور پر ٹیم کے طور پر کھیلے جانے والے کھیلوں میں۔‘‘
Published: undefined
56 تسلیم شدہ قومی کھیلوں کی فیڈریشنوں میں سے صرف چند کے پاس داخلی شکایات کی تفتیش کے لیےکمیٹیاں ہیں، جو خاص طور پر جنسی ہراسانی کی تحقیقات کرتی ہیں۔
Published: undefined
بہت سے کھلاڑی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارتی کھیلوں میں جنسی استحصال عام ہے۔ تاہم متاثرین کے لیے برسوں تک صدمے سے گزرنے کے بعد مجرموں کے نام سامنےلانا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
لیجنڈری ہندوستانی ایتھلیٹ انجو بوبی جارج کو 2017ء میں قومی کھیلوں کے لیے ایک یکساں ضابطہ تیار کرنے کے لیے نو رکنی حکومتی پینل کا حصہ بننے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس نے ہندوستان بھر میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن قائم کرنے کی سفارش کی، جسے ایس اے آئی میں ایک سینئر خاتون اہلکار کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔
Published: undefined
جارج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور اس پر ابھی بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ اس داغ سے کھیلوں کو خطرہ لاحق ہے اور اسے دھونے کے لیے حل موجود ہیں لیکن عمل کرنے کے لیے عزم ہونا ضروری ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ٹیم ایونٹس میں خاص طور پر مرد کوچ اور معاون عملے کی موجودگی میں بدسلوکی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
جارج نے گزشتہ برس عالمی ایتھلیٹکس کی طرف سے ٹیلنٹ نکھارنے اور ہندوستان میں نوجوان لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے اور صنفی مساوات کے لیے لڑنے کی ترغیب دینے پر سال کی بہترین خاتون کا ایوارڈ جیتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے اداروں کو قیادت کرنا ہو گی اور حالات کو درست کرنا ہو گا تاکہ کمزور کھلاڑی آگے آنے اور شکایت کرنے میں محفوظ محسوس کریں۔
Published: undefined
مسابقتی کھیلوں میں انتخاب کے واضح معیار کی عدم موجودگی بھی خواتین ایتھلیٹس کو بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھانے سے روکتی ہے۔ اگر وہ آواز اٹھائیں تو یہ عمل ممکنہ طور پر ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
Published: undefined
کھیلو انڈیا اسٹیٹ سینٹر آف ایکسیلینس کے کھیل اور ورزش کی سائنس کے سربراہ پی ایس ایم چندرن کے مطابق خواتین کھلاڑیوں کو تحفظ دینے کا ایک راستہ یہ ہے کہ خواتین سلیکٹرز کو ہی ٹیم کے مقابلوں کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی جائے۔
Published: undefined
بہت سے کھلاڑیوں اور کھلاڑیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت کو کھیلوں کے تمام اداروں کے لیے یہ لازمی قرار دینا چاہیے کہ وہ اندرونی شکایتی کمیٹیوں کی کارکردگی کی وضاحت کرنے والی باقاعدہ رپورٹیں جاری کریں اور ان کی تفصیلات تنظیم کی ویب سائٹ پر بھی شائع کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز