سماج

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟

ہائر ایجوکیشن اور اس سطح پر ہونے والی معیاری تحقیق کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان میں اعلی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ فی الوقت فنڈز کی شدید کمی کا شکار ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟ 

ڈوئچے ویلے نے پاکستانی جامعات کے وائس چانسلرز، محققین اور ماہرین تعلیم سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ نئی تحقیق اور اعلی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں کتنا معاون ثابت ہو رہا ہے۔

Published: undefined

کہا جارہا ہے کہ امسال ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں نصف تخفیف کر دی جائے گی۔ پچھلے برس ایچ ای سی کو 65.25 ملین بجٹ جاری کیا گیا تھا، جسے گھٹا کر 30 ملین کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔

Published: undefined

اگرچہ اس حوالے سے وزیر اعظم اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے تردید کی گئی ہے کہ نئی حکومت تمام طلباء وطالبات کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم کا اجرا کرنے والی ہے لہذا ایچ ای سی بجٹ میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ متوقع ہے۔

Published: undefined

ڈوئچے ویلے نے ماہرین تعلیم، محققین اور یونیورسٹی چانسلرز سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایچ ای سی کا بجٹ جامعات میں تعلیمی عمل اور تحقیق پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔

Published: undefined

وائس چانسلرز کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر قاسم جان قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سمیت تین جامعات کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی جامعات میں گزشتہ دو دہائیوں میں دیگر شعبہ جات کے علاوہ جیالوجی اور ارتھ سائنسز میں قابل قدر تحقیق ہوئی ہے۔

Published: undefined

ان دونوں سائنسی شعبہ جات کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں براہ راست تعلق ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں مزید کوالیفائیڈ سائنسدانوں اور محققین کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

ان سائنسدانوں کی تربیت کرنے کے لیے جامعات میں جدید تکنیکی آلات جیسے ریموٹ سینسنگ، جیوگرافک انفارمیشن سسٹم، سٹیلائٹ امیجنگ وغیرہ کے ساتھ بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریز کی ضرورت ہے، جو ایچ ای سی کو دیے جانے والے موجودہ بجٹ میں ممکن نہیں ہے۔

Published: undefined

محققین اور اساتذہ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر نیئر زیغم عالم تین دہائیوں تک کراچی یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری جامعات میں بین الاقوامی معیار کی تحقیق کا عمل بہت سست ہے، جس کی ایک بڑی وجہ وسائل، سہولیات اور تحقیق کے لیے دیے جانے والے فنڈز کی کمی ہے۔ نہ ہی اساتذہ کو ان کے کام اور ان تھک محنت کی مناسبت سے تنخواہ دی جاتی ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر نیئر کے مطابق ایک استاد جو خود مالی پریشانیوں میں الجھا ہوا ہو وہ کس طرح یکسوئی سے اپنی یا طلباء کی تحقیق کو وقت دے سکتا ہے، ''سائنسی تحقیق ایک انتہائی محنت طلب کام ہے جو مکمل ذہنی سکون مانگتا ہے جو ہماری جامعات میں اساتذہ اور محققین کو میسر نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر نیئر مزید کہتے ہیں، ''پاکستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی انتہائی قابل سینئر پروفیسر ریٹائر ہوتا ہے تو ہماری جامعات اسے فاضل عضو سمجھ کر نکال پھینکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اساتذہ کو فوری طور پر ایمیریٹس پروفیسرز کے طور پر ہائر کر لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نیئر بتاتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ خود سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی میں انتہائی معقول تنخواہ پر کام کر چکے ہیں۔

Published: undefined

ایچ ای سی اگر ایسے اساتذہ کو ہائر کر لے تو جامعات میں تحقیقی سسٹم ریچارج ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سینئر اساتذہ زندگی کے دیگر جھمیلوں سے تقریبا آزاد ہوتے ہیں اور پوری یکسوئی سے طلبا کو تحقیق میں سپر وائز کر سکتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس عمل کے لیے ایچ ای سی کو مزید بجٹ کی ضرورت ہوگی جو موجودہ معاشی بحران میں ملنا مشکل ہے۔

Published: undefined

بجٹ میں کمی سے طلبا کتنا متاثر ہوں گے؟

ڈاکٹر حنین ریاض پیشے کے اعتبار سے ایکسپرٹ سرجن اور محقق ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس وبا کے بعد دنیا بھر میں تعلیمی نظام متاثر ہوا ہے مگر پاکستان میں صورتحال کچھ زیادہ ہی ابتر محسوس ہوتی ہے۔ وبا کے دوران حکومتی عہدیداروں سے لے کر عام بندے نے بھی دیکھا کہ میڈیکل سائنس میں لوکل ریسرچ کتنی اہمیت کی حامل ہے۔

Published: undefined

اب یہی دیکھیں کہ کورونا وائرس میوٹینٹ کے ساتھ منکی پوکس وائرس ، لمپی سکن ڈیزز وغیرہ وائرل ہو گئی ہیں۔ لہذا مقامی جامعات اور میڈیکل ریسرچ اداروں میں تحقیقی عمل کو تیز تر کرنا وقت کی ضرورت ہے، جس کے لیے مزید سہولیات اور فنڈز کی ضرورت ہے مگر سننے میں آرہا ہے کہ ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

والدین پر اضافی بوجھ بھی

ڈاکٹر حنین مزید کہتے ہیں بجٹ میں کمی سے جامعات کی فیسیں بڑھانا پڑیں گی جو والدین پر ایک اضافی بوجھ ہو گا۔ والدین معیار تعلیم میں گراوٹ سے پہلے ہی شدید تشویش کا شکار ہیں کیونکہ پاکستانی طلباء کے لیے بین لاقوامی تعلیمی اداروں میں سکالر شپ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر حنین کے مطابق ایچ ای سی صرف ہائر ایجوکیشن کو ریگولیٹ نہیں کرتا بلکہ اس کا مقصد ملک میں ہائر لیول پر تحقیق کو پروان چڑھانا اور اس کے معیار کو ریگولیٹ کرنا ہے۔

Published: undefined

پاکستانی جامعات اور ادارون میں جو تحقیق ہو رہی ہے، وہ زیادہ تر بین الاقوامی تحقیق کا چربہ ہے۔ ایسے کیسز اکثر اس وقت سامنے آتے ہیں جب ایسے مقالاجات انٹرنیشنل سائنس جرنلز میں اشاعت کے لیے بھیجے جاتے ہیں، جس سے پاکستان اور متعلقہ تعلیمی اداروں دونوں کی سبکی ہوتی ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر حنین کہتے ہیں کہ چربہ تحقیق کو روکنے کے لیے ایچ ای سی کو ایک مکمل میکینزم بنانا چاہیے مگر ہر جگہ وہی کم بجٹ اور فنڈز کا رونا رو دیا جاتا ہے اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined