برطانیہ کے بادشاہ چارلس کی اہلیہ کوئن کیملا نے بدھ کے روز 'رائل ایئر فورس' (آر اے ایف) کلب میں ہندوستانی نژاد برطانوی جاسوس اور ٹیپو سلطان کے خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون نور عنایت خان کے ایک نئے پوٹریٹ کی نقاب کشائی کی۔
Published: undefined
دوسری عالمی جنگ کے دوران نور خان نے برطانیہ کے اسپیشل آپریشنز ایگزیکٹو (ایس او ای) کے خفیہ ایجنٹ کے طور پر جو قربانی پیش کی تھی اس کے لیے شاہی خاندان نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے خاطر اس کلب کے ایک کمرے کا نام ''نور عنایت خان روم'' رکھا ہے اور اسی میں ان کی نئی تصویر آویزاں کی گئی۔
Published: undefined
نورعنایت خان کو جب سن 1942 میں ایس اوا ی میں بھرتی کیا گیا تو اس وقت وہ آر اے ایف میں خواتین معاون فضائیہ کی رکن تھیں۔ ان کی بہادری کے لیے بعد میں انہیں 'جارج کراس' جیسے بڑے اعزاز سے بھی نوازا گیا، جو برطانیہ میں شجاعت کے لیے دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یہ خطاب اب تک صرف دو خواتین کو ہی ملا ہے۔
Published: undefined
برطانوی نژاد بھارتی مصنفہ شربانی باسو نے نور خان پر 'جاسوس شہزادی: دی لائف آف نور عنایت خان' کے نام سے ان پر سوانح عمری لکھی ہے اور نقاب کشائی کی تقریب کے موقع پر انہوں نے ملکہ کو اس کتاب کی ایک کاپی پیش کی۔ انہوں نے کہا ''یہ ایک قابل فخر لمحہ ہے کہ ملکہ نے آر اے ایف کلب میں نور عنایت خان کی تصویر کی نقاب کشائی کی۔'' انہوں نے مزید کہا، ''میرے لیے، ان کی کہانی بتانا ایک اعزاز کی بات ہے۔ یہ شاندار پورٹریٹ اب بہت سے نوجوان مرد اور خواتین کی نسلیں دیکھیں گی۔ نور کی کہانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔''
Published: undefined
نور عنایت خان سن 1914 میں ماسکو میں نور النساء عنایت خان کے نام سے ایک بھارتی صوفی بزرگ والد اور امریکی والدہ کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ بعد میں وہ چھوٹی عمر میں ہی لندن چلی گئیں، تاہم اسکول کی تعلیم کے لیے پھر وہ واپس پیرس میں رہنے لگیں۔
Published: undefined
دوسری عالمی جنگ کے دوران سقوط فرانس کے بعد وہ پھر انگلینڈ فرار ہو گئیں اور سن 1942 میں پہلے وہاں برطانوی فضائیہ کی خواتین کی ونگ میں بھرتی ہوئیں اور بعد میں اسپیشل آپریشنز ایگزیکٹو (ایس او ای) میں خفیہ ایجنٹ کے طور کام کیا۔ 'رائل ایئر فورس' (آر اے ایف) کلب نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا: ''نور خان پہلی خاتون ایس او ای آپریٹر تھیں، جنہیں 16جون 1943 کو لیسنڈر طیارے کے ذریعے فرانس میں خفیہ طور پر اتارا گیا تھا۔''
Published: undefined
''اس کے اگلے ہفتوں کے دوران گیسٹاپو (جرمن نازی گروپ) نے پیرس کے زیادہ تر اس مزاحمتی گروپ کے لوگوں گرفتار کر لیا، جس میں وہ کام کرتی تھیں۔ تاہم خطرات کے باوجود نور نے انگلینڈ واپس آنے سے منع کر دیا، کیونکہ وہ اپنے فرانسیسی ساتھیوں کو بغیر کسی رابطے کے چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں اور انہیں توقع تھی کہ گروپ کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔''
Published: undefined
سن 1944 میں جرمنی کے ڈاچاؤ حراستی کیمپ میں نازیوں کی وحشیانہ تفتیش کے دوران ان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا، تاہم انہوں نے اپنی زبان نہیں کھولی۔ تفتیش کے دوران گیسٹاپو نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور جب ان پر فائرنگ کی گئی تو ان کے ہونٹوں پر ''آزادی'' کا لفظ تھا۔ نور کو تمام طرح کی اذیتوں کے باوجود 12 ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران اخلاقی اور جسمانی دونوں طرح کی انتہائی نمایاں ہمت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بعد از مرگ انہیں جارج کراس انعام سے بھی نوازا گیا۔
Published: undefined
آر اے ایف کلب میں ان کے نئے پورٹریٹ کی نقاب کشائی ان کے رشتہ داروں کی موجودگی میں کی گئی، جن میں 95 سالہ ان کے کزن شیخ محمود اور بھتیجے پیر ضیا عنایت خان بھی موجود تھے۔ یہ پورٹریٹ معروف برطانوی آرٹسٹ پال براسن نے بنایا ہے جو پورٹریٹ پینٹرز کی سوسائٹی کے سابق صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیق کو نور عنایت خان کی چند دستیاب تصاویر کے مطابق بنایا ہے جس میں ایک خفیہ ایجنٹ کے طور پر ان کے پختہ عزم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز